داسو ہائیڈرو توانائی منصوبے پر اہم اجلاس ایک مرتبہ پھر ملتوی

اپ ڈیٹ 26 جنوری 2019
خصوصی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ مکمل کرکے اجلاس میں اسٹیرنگ کمیٹی کو پیش کرنی تھی—فائل فوٹو: ٹوئٹر
خصوصی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ مکمل کرکے اجلاس میں اسٹیرنگ کمیٹی کو پیش کرنی تھی—فائل فوٹو: ٹوئٹر

لاہور: داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی اسٹیرنگ کمیٹی کا ایک اور اہم اجلاس ایک مرتبہ پھر ملتوی ہوگیا، جس کی وجہ سے پہلے سے تاخیر شدہ زمین کے حصول کو حتمی شکل دینے جبکہ حالیہ اور مشترکہ فارمولے کے تحت متاثرہ لوگوں کو معاوضہ دینے کا معاملہ تاخیر کا شکار ہوگیا۔

ڈان کو معلوم ہوا کہ عارضی طور پر پہلا اجلاس 8 جنوری کو شیڈول تھا لیکن بعد ازاں اسے 24 جنوری کے لیے رکھا، تاہم وفاقی وزیر برائے آبی وسائل اور خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سمیت اعلیٰ حکام کی مصروفیات کے بعد یہ اجلاس دوبارہ نہیں ہوسکا۔

اس حوالے سے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ’اسٹیرنگ کمیٹی کا اجلاس جمعرات (24 جنوری) کے لیے شیڈول تھا لیکن بعد ازاں یہ ممبران کو آگاہ کیا گیا کہ اب اگلے ہفتے کے اختتام تک اجلاس منعقد ہوگا۔

منصوبے کی اسٹیرنگ کمیٹی کا اجلاس اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس میں زمین کے مالکان سے بات چیت کے لیے بنائی گئی خصوصی کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے گا۔

اس کمیٹی کا مقصد 4300 میگا واٹ کے داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کے کام کے لیے ضروری زمین کے حصول کے لیے ان مالکان کو راضی کرنا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’خصوصی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ مکمل کرکے اجلاس میں اسٹیرنگ کمیٹی کو پیش کرنی تھی لیکن یہ اجلاس پھر ملتوی ہوگیا‘۔

انہوں نے کہا کہ زمین کے مالکان، مقامی ایم این ایز، ایم پی ایز اور دیگر معززین سے متعدد ملاقاتوں کے بعد اس رپورٹ کو تیار کیا گیا تھا، اس رپورٹ میں حکومت کو تجویز دی گئی تھی کہ وہ دیامر-بھاشا ڈیم کے متاثرین یا زمین مالکان کو معاوضے کے لیے استعمال ہونے والے فارمولے کے مطابق، یہاں کے زمین مالکان یا متاثرین کی جانب سے معاوضے کے مطالبے کو منظور کرے۔

متاثرہ لوگوں کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے نتیجے میں اس منصوبے پر مالی اثرات پڑیں گے اور 2 مراحل کے اس میگا منصوبے کے لیے مجموعی لاگت (600 ارب روپے سے زائد) کا تقریباً 3 فیصد (18 ارب یا اس سے زیادہ) بڑھے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر خصوصی کمیٹی کی سفارشات کو اسٹیرنگ کمیٹی کی جانب سے منظور کرلیا جاتا ہے تو اس معاملے کو حتمی منظوری کے لیے اکنیک کو بھیجا جائے گا‘۔

دریائے سندھ پر، تربیلا ڈیم سے 240 کلو میٹر اونچائی اور خیبرپختونخوا کے کوہستال علاقے میں واقع اس منصوبے کو عالمی بینک کی جانب سے فنڈ کیا جارہا ہے اور 2014 میں استعمال کے لیے منظور ہونے والے فنڈز کی مدت میں تیسری مرتبہ ایک سال کے لیے توسیع کی گئی ہے۔

ان فنڈز کے عدم استعمال کو زمین کے حصول سے جوڑا جاتا ہے کیونکہ گزشہ ماہ بنائی گئی خصوصی کمیٹی کے ممبران کو ملاقاتوں، متاثرہ لوگوں کے مطالبے، (مطالبات تسلیم کرنے کی صورت میں) مالی اثرات اور تجاویز سے متعلق رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی۔

عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ’کمیٹی کی جانب سے کیا گیا کام پہلے ہی متاثرہ لوگوں کے مطالبات کے مطابق ہے، تاہم ان لوگوں سے حلف نامہ پہلے ہی لیا گیا ہے کہ مستقبل میں ان کے یہ مطالبات مزید نہیں بڑھیں گے‘۔


یہ خبر 26 جنوری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں