لاہور ہائیکورٹ: چوہدری نثار کے اسمبلی میں حلف نہ اٹھانے کا اقدام چیلنج

26 جنوری 2019
درخواست گزار کے مطابق چوہدری نثار نے حلف نہ اٹھاکر ووٹرز کی تذلیل کی ہے — فائل فوٹو
درخواست گزار کے مطابق چوہدری نثار نے حلف نہ اٹھاکر ووٹرز کی تذلیل کی ہے — فائل فوٹو

لاہور: سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی جانب سے صوبائی اسمبلی میں حلف نہ اٹھانے کا اقدام لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔

چوہدری نثار کے خلاف مذکورہ درخواست ندیم سرور ایڈووکیٹ کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ نمائندوں کا حلف نہ اٹھانا عوامی نمائندگی قانون کے خلاف ہے اور یہ اقدام آرٹیکل 2 اے 17 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ چوہدری نثار نے صوبائی نشست پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد تاحال پنجاب اسمبلی میں حلف نہیں اٹھایا اور انہوں نے حلف نہ اٹھاکر ووٹرز کی تذلیل کی ہے۔

مزید پڑھیں: ’پاناما جے آئی ٹی میں خفیہ ایجنسیوں کو چوہدری نثار، نواز شریف نے شامل کروایا‘

عدالت کو بتایا گیا کہ پنجاب اسمبلی میں چوہدری نثار کا حلقہ نمائندگی سے محروم ہوچکا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی کہ عدالت چوہدری نثار کی کامیابی کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم جاری کرے۔

عدالت عالیہ سے یہ بھی استدعا کی گئی کہ وہ الیکشن کمیشن کو انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے اراکین اسمبلی کو حلف اٹھانے کا پابند کرے۔

خیال رہے کہ پاناما پیپرز لیکس منظر عام پر آنے کے بعد اور سپریم کورٹ کی جانب سے اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنائے جانے پر اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے درمیان اختلافات نہ صرف منظر عام پر آئے بلکہ سابق وزیر داخلہ نے جولائی 2018 میں ہونے والے انتخابات میں آزاد حیثیت سے حصہ بھی لیا۔

مذکورہ انتخابات میں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی کے حلقہ 59 اور 63 اور صوبائی اسمبلی کے 2 حلقوں پی پی 10 اور پی پی 12 سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا، تاہم انہیں صوبائی اسمبلی کے حلقے پر کامیابی حاصل ہوئی تھی جبکہ قومی اسمبلی کے حلقے میں کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ہوئی تھی۔

چوہدری نثار علی خان کون ہیں؟

چوہدری نثار علی خان 31 جولائی 1954ء کو راولپنڈی کے علاقے چکری وکیلاں میں پیدا ہوئے۔ ایچی سن اور آرمی برن ہال کالج سے تعلیم حاصل کی، وہ پرویز خٹک اور عمران خان کے کلاس فیلو رہ چکے ہیں۔

چوہدری نثار 1988ء سے مختلف عہدوں کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر بھی رہے۔ 1988ء میں وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر رہے، 1997ء سے 1999ء کے دوران وزیرِ پٹرولیم اور قدرتی وسائل اور وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ کا عہدہ سنبھالا۔ 29 مارچ 2008ء سے 13 مئی 2008ء کے درمیان یوسف رضا گیلانی کی کابینہ کے دوران وہ سینئر وزیر ہونے کے ساتھ ساتھ وزیر برائے خوراک، زراعت اور مویشی/لائیو اسٹاک رہے اور وزیرِ مواصلات کی وزارت کا قلمدان بھی انہی کے سپرد تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 'اگر میرا مشورہ مان لیا جاتا تو آج مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہوتی'

17 ستمبر 2008ء سے 7 جون 2013ء تک قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف رہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی حالیہ حکومت میں جون 2013ء سے 28 جولائی 2017ء تک وزیرِ داخلہ رہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اس قدر اہم ترین وزیر تھے کہ ان کی مرضی کے بغیر میاں نواز شریف کوئی اہم فیصلہ نہیں لیتے تھے۔

اس کے حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پرویز مشرف کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ بھی نواز شریف نے چوہدری نثار علی خان کے مشورے کے بعد ہی کیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کا شکوہ ہے کہ 2013ء کے بعد بھی کئی ایسے اہم واقعات ہوئے جب وزیرِ داخلہ منظرِ عام پر کہیں نظر نہیں آئے اور یہی وجوہات آہستہ آہستہ چوہدری نثار کو پارٹی قیادت سے دور کرتی رہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں