سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج لیک ہونے پر شہریوں کو تشویش

اپ ڈیٹ 27 جنوری 2019
پولیس نے فوٹیج لیک ہونے کے معاملے کی تحقیقات کا آغاز کردیا — فائل فوٹو
پولیس نے فوٹیج لیک ہونے کے معاملے کی تحقیقات کا آغاز کردیا — فائل فوٹو

اسلام آباد میں سیف سٹی منصوبے کے کیمروں کی فوٹیج مبینہ طور پر لیک ہونے پر جہاں شہریوں نے تشویش کا اظہار کیا وہیں منصوبے کو ذاتی زندگی میں مداخلت اور اس کے استعمال کو غلط بھی قرار دیا۔

خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر گاڑی میں بیٹھے جوڑوں کی تصاویر وائرل ہوگئی تھیں۔

واضح رہے کہ سیف سٹی کا منصوبہ اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور میں شروع کیا گیا تھا، جس کا مقصد دہشت گردی اور جرائم کی بروقت روک تھام میں معاونت کرنا تھا۔

مزید پڑھیں: چیئرمین نیب نے سیف سٹی پروجیکٹ کی تفصیلات طلب کرلیں

لیکن یہ سہولت متعدد مواقع پر مطلوبہ نتائج نہ دے سکی، جس میں پشاور کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) طاہر داوڑ کے اغوا اور قتل کا معاملہ بھی شامل ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں منظر عام پر آنے والی فوٹیج نے منصوبے پر متعدد سوالات اٹھا دیئے ہیں کہ آیا یہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہے یا ان کی زندگیوں کے لیے خطرہ ہیں۔

پولیس حکام کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر لیک فوٹیج شیئر ہونے کے بعد اسلام آباد پولیس نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے کہ آیا یہ فوٹیج دارالحکومت سے ہیں یا ان کا تعلق کسی اور شہر سے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ مذکورہ تصاویر اسلام آباد میں سیف کیمرے کے منصوبے سے تعلق نہیں رکھتیں، اس کے علاوہ تفتیش کارروں نے فوٹیج میں شناخت ہونے والی گاڑی کے مالکان سے رابطہ کیا اور انہیں اس معاملے میں بیان دینے کو بھی کہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: طاہر داوڑ قتل کیس کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی سربراہ تبدیل

فوٹیج میں نظر آنے والی اسلام آباد رجسٹریشن نمبر کی ایک گاڑی کے مالک نے پولیس کو بتایا کہ یہ تصاویر لاہور کی ہیں جبکہ ایک اور فرد، جن کی گاڑی بھی اسلام آباد رجسٹریشن نمبر کی ہے، کا کہنا تھا وہ اپنی گاڑی لاہور کے ایک رہائشی کو فروخت کرچکے ہیں۔

اسی طرح فوٹیج میں نظر آنے والی لاہور رجسٹریشن نمبر کی ایک گاڑی کے مالک نے پولیس کو بتایا کہ وہ بہاولپور کا رہائشی ہے اور وہاں ایک ہسپتال میں ملازم ہے۔

انہوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں لاہور آئے تھے جہاں تصاویر لی گئی ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فوٹیج اسلام آباد کے سیف سٹی کیمرا کی نہیں ہیں۔

ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ڈان کو بتایا کہ کچھ سال پہلے اسلام آباد کے سیف سٹی منصوبے کے تحت لگائے گئے کیمروں کی فوٹیج لیک ہوئی تھیں، جن میں 2016 میں ایک خاتون کی تصویر بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں: سی سی ٹی وی فوٹیج کی 'لیک' پر پولیس کی قیادت برہم

مذکورہ معاملے کے 4 ذمہ داران کو ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اسلام آباد سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج اور ویڈیو ڈاؤن لوڈ کرنا ناممکن ہے جبکہ انہیں موبائل کیمرے یا ویڈیو کمیرے کی مدد سے کاپی کرنا بھی ناممکن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ضابطہ اخلاق (ایس او پی) کے تحت سیف سٹی کنٹرول روم سے یا عمارت سے کسی ویڈیو یا تصویر کو لیک کرنا ناممکن ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں