حساس علاقوں میں تیل، گیس کے ذخائر کی تلاش کیلئے سیکیورٹی اہلکار بڑھانے کا منصوبہ

اپ ڈیٹ 29 جنوری 2019
ان علاقوں میں بلوچستان کے انتہائی حساس زون بھی شامل ہیں—فائل فوٹو
ان علاقوں میں بلوچستان کے انتہائی حساس زون بھی شامل ہیں—فائل فوٹو

اسلام آباد: حکومت نے ملک کے دشوار گزار اور حساس علاقوں میں تیل اور گیس کے ذخائر کی بغیر کسی رکاوٹ تلاش کو یقینی بنانے کے لیے تقریباً 50 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کی خصوصی فورس میں اضافے کے لیے کام کا آغاز کردیا ہے۔

ان دشوار گزار اور حساس علاقوں میں خاص طور بلوچستان کے علاقے شامل ہیں جہاں انتہائی حساس زون ہونے کی وجہ سے تقریباً 3 دہائیوں سے رسائی ممکن نہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس بات کا انکشاف پیٹرولیم ڈویژن کے ایڈیشنل سیکریٹری انچارج میاں اسد حیاالدین نے سینیٹ پینل کے سامنے کیا، جہاں انہوں نے بتایا کہ فروری کے وسط جبکہ مارچ اور اپریل سے بالترتیب زرغون اور بلاک 28 کے علاقوں میں ذخائر کی تلاش کا کام شروع ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ سدرن کمانڈ، فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی)، صوبائی حکومت اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت ہوئی ہے اور ایک ہفتے کے دوران ہی یہ معاملہ وزیر اعظم کی منظوری کے لیے ایک خصوصی اجلاس میں رسمی طور پر سامنے رکھا جائے گا۔

مزید پڑھیں: پاک-ایران سرحد کے قریب تیل کے نئے ذخائر دریافت

اسد حیات الدین کا کہنا تھا کہ ’50 ہزار سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ہم 7 سے 8 سال میں (تمام نو گو ایریاز میں) ذخائر کی تلاش اور کھدائی کا سروے مکمل کرنے کے قابل ہوجائیں گے، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ 200 سے 250 سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودہ فورس کے ساتھ یہی کام کرنے میں 780 سال لگیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ پیٹرولیم ڈویژن نے پیٹرولیم مصنوعات کی تلاش کے لیے ضروری کاموں اور دیگر ضروری سامان کی مکمل تفصیلات جمع کی ہیں تاکہ وہ فوری طور پر متحرک ہوجائیں اور جہاں سب سے زیادہ سیکیورٹی کلیرنس کی ضروری ہے اسے یقینی بنائیں۔

ایڈیشنل سیکریٹری انچارج کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ حکومت، مجوزہ خصوصی فورس کے ذریعے سیکیورٹی فراہم کرنے کی ذمہ داری لے تو پیٹرولیم کمپنیوں کے تقریباً 14 ارب روپے کے سالانہ سیکیورٹی اخراجات کو مزید ذخائر کی تلاش کے سامان کی فراہمی کے لیے بہتر طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ اگرچہ مجموعی طور پر سیکیورٹی صورتحال بہتر ہوئی تاہم پیٹرولیم ڈویژن سمیت متعلقہ انتظامیہ اب ہائیڈروکاربن امکانات اور ضروری سیکیورٹی آپریشن کے ساتھ چھوٹے حصوں میں اہداف شدہ سروے کر رہی ہے۔

اسد حیا الدین کا کہنا تھا کہ ایف سی اور سدرن کمانڈ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک ہفتے میں زرغون علاقے کے لیے کلیئرنس دیں گے اور اس کے بعد بلوچستان کے ضلع کوہلو کے 6 ہزار 2 سو اسکوائر کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیلے بلاک 28 کے لیے کلیئرنس دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ بلاک 28 پیٹرولیم ڈویژن کی اولین ترجیح میں شامل تھی اور ’سدرن کمانڈ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان جو سابق وزیر مملکت برائے پیٹرولیم کے حیثیت سے اس معاملے کو بہت اچھے طریقے سے سمجھتے ہیں، ان کی جانب سے حمایت سے ہماری بہت حوصلہ افزائی ہوئی ہے‘۔

دوسری جانب پیٹرولیم کنسیشن کے ڈائریکٹر جنرل قاضی سلیم کا کہنا تھا کہ اصل میں بلاک 28 کو 27 سال قبل سرکاری کی بڑی کمپنی، آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) کے حصص کے ساتھ برطانوی کمپنی کو دیا گیا تھا لیکن سیکیورٹی صورتحال، حساس علاقے اور بنیادی ڈھانچے کے مسائل نے زمینی سطح پر کام کی اجازت نہیں دی۔

یہ بھی پڑھیں: آئل، گیس اور دیگر معدنی ذخائر کو کنٹرول کرنے کیلئے صوبے متحرک

انہوں نے کہا کہ ’نو گو ایریاز کی وجہ سے علاقے میں ایک طویل عرصے سے بحالی کی بھی کوئی سرگرمیاں نہیں ہوسکیں‘، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اب حکومت نے برطانوی فرم کے اسٹیکس کو ماری پیٹرولیم، اوجی ڈی سی ایل اور آسٹریا کی ایم او ایل کو فروخت کرنے کی سہولت دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماری پیٹرولیم اور مول کے نمائندگان نے بتایا کہ وہ آئندہ ہفتے یا فروری کے وسط میں کھدائی کے سروے کے لیے زرغون کے علاقے سے داخل ہوں گے اور اس کے بعد مارچ سے اپریل تک ایف سی کے سیکیورٹی حصار کے ساتھ کوہلو کے علاقے میں جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا ابتدائی طور پر اہداف شدہ علاقہ ایک ہزار 4 سو 78 اسکوئر کلو میٹر پر محیط ہے اور امید ہے کہ بین الاقوامی طریقوں کے مطابق کھدائی اور تلاش سے متعلق سروے تقریباً ایک سال میں مکمل کرلیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں