یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں انٹرپرینیور (اپنا کاروبار شروع کرنے والوں) کی طرف رجحان کافی متاثر کن نظر آیا ہے۔ 15 برس پہلے تک اس کا تصور ہی نہیں پایا جاتا تھا جبکہ آج یہ رجحان ملٹی اسٹیک ہولڈر صنعت میں تبدیل ہوچکا ہے، جو تیزی کے ساتھ عالمی سطح پر قابلِ قبول بنتی جا رہی ہے۔

انٹرپرینیور کی طرف رجحان

’کارانداز پاکستان‘ اور ’لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز‘ کے تعاون کے ساتھ پلینٹ این (Planet N) کی جانب سے 2017ء میں پیش کردہ رپورٹ میں نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو پیش آنی والی مشکلات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2010ء کے بعد نئے کاروبار کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 723 تک پہنچ گئی، جن میں سے 68 فنڈ اکٹھا کر رہے تھے اور ان میں سے 6 ایسے تھے جو 5 لاکھ ڈالر سے زائد سرمایہ کاری حاصل کرچکے تھے۔

نیا کاروبار شروع کرنے والوں نے 2 کروڑ ڈالر حاصل کیے جبکہ مڈ اسٹیج کمپنیوں نے 4 کروڑ 90 لاکھ ڈالر حاصل کیے۔ اس پیداوار کو انفراسٹریکچر اور پالیسی اقدامات کی وجہ سے تقویت پہنچی ہے۔ گزشتہ 6 برسوں کے دوران پورے پاکستان میں نیا کاروبار شروع کرنے والوں کے لیے سہولت مراکز کے ساتھ ساتھ بزنس انکیوبیٹرز (نیا کاروبار شروع کرنے والوں یا کاروبار کا آغاز کرنے والوں کو خدمات فراہم کرنے والی کمپنی)، ایکسی لیٹرز اور کو-ورکنگ اسپیس بھی ابھر کر سامنے آئیں، جن میں سے کچھ جگہوں پر وفاقی حکومت کے نیشنل آر اینڈ ڈی فنڈ (National R&D Fund) کی معاونت شامل ہے۔

بین الاقوامی کاروباری مقابلے پورے سال ہی منعقد ہوتے رہتے ہیں، اس طرح نوجوان انٹرپرینیورز کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنا بزنس آئیڈیا ابتدائی مرحلے میں ہی پرکھ سکیں۔ رواں سال صنعتی سرگرمی 2 بڑی سطح کے بین الاقوامی پلیٹ فارم 021Disrupt اور Momentum کی صورت میں ہوئیں۔ یہ مقابلے نہ صرف نیا کاروبار شروع کرنے والوں یا کاروبار کی ابتدا کرنے والوں کو ایک جگہ پر جمع کرتے ہیں بلکہ پورا شعبہ عالمی سطح پر اجتماعی حیثیت کی سرگرمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔

پالیسی اور اپنا نیا کاروبار شروع کرنے والے

پالیسی کی بات کی جائے تو حکومت نے زیادہ پیداواری اداروں کو فروغ دینے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں تاکہ اس طرح نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو بہتر انداز میں تقویت مل سکے۔ قانونی کاغذی کارروائی کے لیے ون ونڈو سہولت کی فراہمی کے نتیجے میں پاکستان اب ورلڈ بینک کے ’ایز آف ڈوئنگ بزنس انڈیکس‘ میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 11 درجے ترقی کرکے اب 136ویں نمبر آگیا ہے۔ اس انڈیکس میں انڈیا کا نمبر 77 اور بنگلہ دیش 176ویں نمبر پر ہے۔ سیڈ کیپیٹل (نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو درکار سرمائے) کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے 2014ء میں نوجوانوں کے لیے انٹرپرینیور قرضہ اسکیم متعارف کروائی۔

اس اسکیم کے ذریعے 8 فیصد سالانہ سروس چارج کی بنیاد پر سبسڈی کے ساتھ فنانسگ کی گئی۔ مالی سال 2018ء اور 2019ء میں توقع ہے کہ 3 ارب 70 کروڑ روپے کے ساتھ 2 ہزار 800 درخواست گزار فائدہ حاصل کرسکیں گے۔

(اسی قسم کی ایک پالیسی ‘انٹرپرائز سری لنکا‘ پروگرام کے تحت سری لنکا میں ارابوما (Arabuma) کے نام سے شروع کی گئی، جس میں 2017ء میں نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو ٹیکس سے استثنٰی دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ ایک ایسی مالی رعایت (financial incentive) ہے جو نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو برابر کا میدان فراہم کرتی ہے جبکہ پاکستان میں نیا کاروبار شروع کرنے والے اب بھی اس قسم کے استثنٰی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔)

پاکستان میں 2016ء میں نیشنل آئی ٹی پالیسی متعارف کروائی گئی تھی، اگر اس پالیسی پر اس کی حقیقی روح کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے تو یقینی طور پر نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو برابر میدان فراہم ہوسکے گا۔ آنے والی حکومت کی جانب سے پیش کردہ ڈیجیٹل پالیسی میں پورے پاکستان کے اندر Knowledge Economy Authorities قائم کرنے کی بات بھی شامل ہے تاکہ گورننس کو بہتر بنانے کی غرض سے انٹرپرائز نظاموں کے معیار کی بہتری کو یقینی بنایا جائے، جبکہ قومی ڈیٹابیس کی سالمیت اور سیکیورٹی کو لازمی طور پر یقینی بنایا جائے۔

اگرچہ حکومت کاروبار کرنے کے عمل میں مزید آسانی کے لیے اسپیشل اکنامک زونز (ایس ای زیز) قائم کرنے کی خواہاں ہے، تاہم اس کا دھیان آئی ٹی پارکس بنانے اور جدید شہروں کی تعمیر پر مرکوز ہونا چاہیے جیسے شہر ہمیں چین اور ملائشیا میں نظر آتے ہیں۔ اس طرح اسمال میڈیم انٹرپرائزس (ایس ایم ایز) کے اندر نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو بے پناہ مواقع پیدا ہوں گے۔ (روایتی ایس ایم ایز پاکستان میں 80 فیصد سے زائد ملازمتیں پیدا کرتی ہیں۔)

تو ہم کس مقام پر ہیں؟ ملک میں انٹرپرینیورشپ کی طرف رجحان بڑھانے کے لیے مددگار اور حوصلہ افزا انفرااسٹریکچر اور پالیسیاں موجود ہیں اور نجی شعبہ بھی نیا کاروبار شروع کرنے والوں کی معاونت کر رہا ہے۔ اعداد و شمار بھی حوصلہ افزا رجحان پیش کرتے ہیں۔ تاہم اب بھی بہت سارا کام ہمیں کرنا باقی ہے۔

آئیے ہم اس حوالے سے 3 اہم اسٹیک ہولڈرز کا جائزہ لیتے ہیں۔

انٹرپرینیورز

نوجوانوں کو سماجی و اقتصادی صورتحال کا وسیع تناظر میں جائزہ لینا چاہیے تاکہ یہ ان مسائل کی نشاندہی کرسکیں جسے وہ خود جدید تقاضوں کے تحت حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ حقیقی زندگی کی مشکلات کا حل فراہم کرنے کے علاوہ پیمائش (scalability) (یہ کسی نظام کی وہ خاصیت ہوتی ہے جس کی مدد سے وہ نئے مراحل اور تبدیل ہوتی اور بڑھتی ہوئی ضروریات کو انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے یا یہ کہ اگر ضرورت درپیش آجائے تو اپنا دائرہ عمل وسیع کرسکنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔) اس کے علاوہ اور نقل پذیری (replicability) بھی ملازمتیں پیدا کرنے اور سیڈ سرمایہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور معیشت میں اضافے کے لیے متحرک کردار ادا کرسکتی ہیں۔

چونکہ جدت پسندی (innovation) ایک اہم ترین خاصیت ہے جس پر آئیڈیاز مبنی ہوتے ہیں۔ اگر اسٹارٹ اپ کی بات کی جائے تو یہ معلومات کے تبادلے یا تجربات کو آگے بڑھانے سے مزید پھیلتے ہیں۔

حکومت

حکومت کو ہمہ جہت کردار ادا کرنا ہوگا۔ نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو عالمی ویلیو چینز (global value chains) کا حصہ بنانے اور مؤثر انداز میں معیشت کے لیے مفید بنانے کی خاطر حکومت کو تعمیری پیداواری سطح کو برقرار رکھنا ہوگا۔ اس سے مراد افقی (horizontal) اور عمودی (vertical)، یعنی ہر اطراف میں ڈیجیٹل ادائیگیوں جیسے مددگار شعبوں کو سہولت فراہم کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو مالی وسائل تک رسائی میں مدد فراہم کرنے کے لیے حکومت کو متحرک کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً، غیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنا ہوگا اور انہیں سہولت فراہم کرنی ہوگی، آپریشنل کاروباری عمل (operational process) کو ون ونڈو آپریشن کے تحت سادہ بنانا ہوگا اور قانونی اور کم از کم رقم کی ضروریات کو گھٹانا ہوگا۔

سرمایہ کار

مقامی کاروباری برادری کو ایسا طریقہ کار اپنا چاہیے جس میں رسک کی زیادہ پرواہ نہ کی جائے اور نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو مدد فراہم کی جائے۔ پاکستان کا پہلا بزنس ریئلٹی شو 'آئیڈیا کروڑوں کا' اس حوالے سے سرگرم کردار ادا کررہا ہے۔

انٹرپرینیورشپ کا رجحان تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ تاہم ہمیں اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جو مواقع اسٹیک ہولڈرز کے لیے پیدا کیے گئے ہیں انہیں بین الاقوامی میدان تک رسائی ہو، تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ وہاں کیا کچھ ہورہا ہے۔ ایمازون، فیس بک اور گوگل جیسے ٹیکنالوجی کے بڑے بڑے پلیٹ فارمز مقامی انٹرپرینیور کی معاونت کر رہے ہیں۔ تاہم ہمیں بین الاقوامی نظام سے سیکھنا ہوگا اور جو کچھ سیکھیں اس کا اطلاق ثقافتی تبدیلیوں کے ساتھ یہاں کرنا ہوگا۔

اسٹارٹ اپ ایکسچیج پروگرامز کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر مشترکہ طور پر کام کیا جارہا ہے اور وقت آگیا ہے کہ حکومت انٹرپرینیورشپ اور جدت (innovation) کی بنیاد پر دو طرفہ تعلقات قائم کرے۔ عالمی مسائل کو ساتھ مل کر حل کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں انٹرپرینیورشپ کا منظرنامہ ترقی کی طرف مائل نظر آتا ہے، لیکن یہ تو سفر کی ابھی شروعات ہے۔ انٹرپرینیورشپ کا کوئی بھی ماحول 4 اہم عناصر پر مشتمل ہوتا ہے۔

1 کاروبار کے بانی

ہمیں ایسے مزید کاروبار بانی درکار ہیں جو پُرجوش ہوں، اپنے کام کے ماہر ہوں اور جو نہ ہی اپنی حکمتِ عملی کو بدلنے میں ہچکچاتے ہوں اور نہ ہی اپنے خوابوں کو ترک کردیتے ہوں۔

2 سرمایہ کار

ہمیں ایسے زیادہ سرمایہ کار چاہئیں جو پیسے لگانے اور خاص طور پر اپنا وقت اور رابطے دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ کریں۔ ایس ایم ای شعبے کے سی ای اوز کو ریئل اسٹیٹ سے زیادہ نوجوان انٹرپرینیورز میں زبردست اعتماد بحال اور سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اس رجحان کو پیدا کرنا ہوگا۔

3 استاد

استاد انٹراپرینیورز یا خود انٹرپرینیورز ہونے چاہئیں۔ وہ صحیح سوالات پوچھنے اور کاروبار کے بانیوں کو اسٹریٹجک ہدایات دینے کے ساتھ ہی ساتھ اپنے دیے گئے مشوروں کی پیروری کرتے رہنے اور ان کی ذمہ داری لینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

ہمارے ہاں سرگرم ہوکر کام کرنے والے بہترین استادوں کی بڑی کمی ہے۔ آج کے نوجوان بانی کل کے بہترین استاد بن سکتے ہیں، انہیں اپنے علم سے دیگر کو مستفید کرنا چاہیے۔

سہولت کار

یہ وہ لوگ ہیں جو انکیوبیٹرز اور ایکسی لیٹرز چلاتے ہیں، کاروبار شروع کرنے والوں اور صنعت کے درمیان پل کا کام انجام دینا چاہتے ہیں اور ایک قدم آگے چل کر کام کرنے میں بھی نہیں ہچکچاتے۔


نبیل قدیر پاکستان میں یو این سی ٹی اے ڈی — کامن ویلتھ انٹرپرینیورشپ پراجیٹ اور سُپیریئر گروپ کے سی آئی او ہیں۔


**یہ مضمون ارورا میگزین کے نومبر اور دسمبر کے ایڈیشن میں شائع ہوا ہے. **

تبصرے (1) بند ہیں

Ahmed Feb 02, 2019 03:34pm
Nice effort, informative and encouraging