وزیراعظم آزاد کشمیر کا گلگت بلتستان پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہ کرنے کا مطالبہ

30 جنوری 2019
فاروق حیدر نے کہا کہ آزاد کشمیر کےعوام اور حکومت گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ کھڑےہیں—فوٹو:اے پی پی
فاروق حیدر نے کہا کہ آزاد کشمیر کےعوام اور حکومت گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ کھڑےہیں—فوٹو:اے پی پی

آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے 17 جنوری کو گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر کیے گئے فیصلے پر عمل در آمد نہ کیا جائے۔

راجا فاروق حیدر نے اپنے بیان میں کہا کہ ‘ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ گلگت بلتستان کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل در آمد نہ کرے تاہم ماضی میں کمیٹیوں کی جانب سے دی گئی سفارشات کو نافذ کردینا چاہیے’۔

ان کا کہنا تھا کہ فیصلے سے گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کی حیثیت ‘بے وقعت ادارے’ جیسے ہوگی۔

وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر کی تمام سیاسی قیادت اپنے اس خیال پر متفق ہے اور اس حق میں ہے کہ گلگلت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کو اپنے اندرونی معاملات چلانے کے لیے غیر مشروط طور پر بااختیار ہونا چاہیے۔

اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘دفاع، سیکیورٹی، کرنسی اور ٹیلی کمیونی کیشن کے علاوہ دیگر تمام امور پر قانون سازی کے اختیارات گلگت بلتستان اسمبلی کو تفویض کردینا چاہیے’۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں علاقے کی حیثیت، حکمرانی، اختیارات اور قانون سازی کے حوالے سے کئی قانونی اور آئینی پیچیدگیاں ہیں۔

مزید پڑھیں:گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی آئینی حقوق فراہم کیے جائیں، سپریم کورٹ کا حکم

راجا فاروق حیدر نے کہا کہ ‘فیصلہ ایک طرف گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ بھی تسلیم کرتا ہے لیکن دوسری طرف وفاق کو ترمیم کے ذریعے آئین کی شق 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کی حدود میں لانے کی ہدایت کرتا ہے’۔

انہوں نے واضح کیا کہ آزاد جموں و کشمیر کے عوام اپنے گلگت بلتستان کے بھائیوں کو آئینی حقوق دینے کی مکمل طور حمایت کرتے ہیں۔

وزیراعظم آزاد کشمیر راجافاروق حیدر نے کہا کہ ‘معاملے کی حساسیت اور اہمیت کے پیش نظر یہ فیصلہ حکومت پاکستان کی پوزیشن کے خلاف اثرانداز ہوسکتا ہے’۔

انہوں نے ایک مرتبہ پھر واضح کیا کہ اس معاملے پر آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں، حکومت اور عوام ایک صفحے پر ہیں۔

یاد رہے کہ 17 جنوری 2019 کو سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی آئینی حقوق فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ گلگت بلتستان کی عدالتیں آئین پاکستان کی تابع ہیں اور سپریم کورٹ کا دائرہ کار بھی گلگت بلتستان تک نافذالعمل ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: گلگت بلتستان سے متعلق حکومت کی مجوزہ قانون سازی کا مسودہ طلب

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، جس کے تحت کشمیر پر رائے شماری تک گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں۔

فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ گلگت بلتستان کی عدالتیں اور سپریم ایپلٹ کورٹ کا اختیار صرف گلگت بلتستان تک محدود ہے جبکہ یہ عدالتیں گلگت بلتستان آرڈیننس کے ساتھ ساتھ آئین پاکستان کی بھی تابع ہیں۔

چناچہ گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ صدارتی آرڈیننس کالعدم قرار نہیں دے سکتی البتہ یہ عدالتیں گلگت بلتستان کونسل کی قانون سازی پر نظر ثانی کرسکتی ہیں، علاوہ ازیں گلگت بلتستان کی عدالتوں کو پاکستان میں آئینی اختیارات حاصل نہیں ہیں۔

لارجرز بنچ کے فیصلے میں کہاگیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدارتی آرڈیننس میں ترامیم تجویز کی ہیں اور قرار دیا ہے کہ صدارتی آرڈیننس میں صرف آئین کے آرٹیکل 124 میں درج طریقہ کار کے مطابق ہی ترمیم ہو سکتی ہے لہٰذا اگر پارلیمنٹ اس صدارتی حکم میں تبدیلی یا ترمیم کرے تو سپریم کورٹ آئین کے تحت اس کا جائزہ لے سکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں