اسلام آباد: پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری فضیل اصغر نے سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے ساہیوال سانحے میں بڑی غلطیاں کی ہیں، بچوں کے سیٹ پر موجود ہونے کے حوالے سے جاننے کے کئی طریقے تھے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ بچے کا ویڈیو بیان جس میں اس نے کہا تھا کہ اس کے والد نے سی ٹی ڈی اہلکاروں کو پیسوں کی پیشکش کی تھی غلط ہوسکتا ہے اور ہمیں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے تاکہ واضح تصویر سامنے آسکے۔

ایف آئی آر میں 16 اہلکاروں کے نام ہونے کے برعکس فضیل اصغر نے دعویٰ کیا کہ سانحے میں صرف 6 اہلکار ملوث تھے جن میں ایک سب انسپیکٹر اور 5 کانسٹیبل تھے اور ایک ڈرائیور تھا۔

مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال: سینیٹ کمیٹی اور ورثا کا جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ

ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب، جنہوں نے جے آئی ٹی بنائی ہے، نے پہلے ہی دعویٰ کردیا تھا کہ جے آئی ٹی گاڑی کے ڈرائیور ذیشان کو دہشت گرد بتائے گی جبکہ خلیل اور اس کے اہل خانہ کو بے گناہ قرار دے گی، جن کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری 6 اہلکاروں پر عائد کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ’ذیشان جس گاڑی کو چلارہا تھا اس کا مالک داعش کا نائب امیر عدیل ہے، ایجنسیوں نے 2 روز قبل گاڑی کی نشاندہی کرلی تھی تاہم وہ یہ نہیں جان سکے تھے کہ ذیشان کس گھر میں رہ رہا ہے تاہم 19 دسمبر کو گاڑی لاپتہ ہوئی اور لاہور میں 8 ہزار سی سی ٹی وی کیمرے ہونے کے باوجود نہیں ملی تھی لیکن صبح 9.30 بجے منگا منڈی کے ایک کیمرے نے گاڑی کی نمبر پلیٹ پہچانی اور الرٹ جاری کیا بعد ازاں خفیہ ایجنسیوں کو پیغام پہنچانے میں ایک گھنٹہ لگ گیا تھا‘۔

یہ بھی پڑھیں: ساہیوال واقعے کے متاثرہ خاندان کو اسلام آباد نہیں بلایا، رحمٰن ملک

انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی اہلکار سمجھے کہ تمام افراد نے خودکش جیکٹس پہن رکھی ہیں جس کی وجہ سے اہلکاروں نے ان کو گرفتار کرنے کے بجائے گولی چلائی۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ذیشان نے سی ٹی ڈی اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی۔

فضیل اصغر کا کہنا تھا کہ ’افغانستان سے 2 کالز کو ٹریس کیا گیا، جو ثابت کرتی ہیں کہ عدیل اور ذیشان ایک دوسرے کو جانتے تھے اور ذیشان داعش کا رکن بھی تھا، دوسری کال پر یہ بتایا گیا تھا کہ دہشت گرد تنظیم کا ایک رکن ہلاک ہوگیا ہے، اس کے علاوہ قبل ازیں فیصل آباد میں ہلاک ہونے والے عدیل سے برآمد کی جانے والی سم سے ثابت ہوتا ہے کہ عدیل ذیشان کے گھر جاچکا تھا'۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ہر 6 سے 7 دنوں میں کم از کم ایک دہشت گرد ہلاک ہوتا ہے اور اگر یہ حقائق پارلیمنٹ کو بتائے گئے تو اراکین پارلیمنٹ کی نیندیں اڑ جائیں گی۔

سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے بریفنگ سننے کے بعد کہا کہ وہ مزید فکر مند ہوگئی ہیں، ذیشان کو گرفتار بھی کیا جاسکتا تھا تاکہ اس سے مزید معلومات حاصل کی جاسکیں۔

مزید پڑھیں: ساہیوال واقعہ: سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج

کمیٹی کے چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ بچے کا بیان جھوٹا نہیں ہوسکتا تاہم انہوں نے اسے مار ہی دیا جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے اگر یہ بات چیت ہوئی تو سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گرفتاریاں کیوں نہیں کیا۔

فضیل اصغر نے جواب دیتے ہوئے بتایا کہ یہ بیان غلط تھا اور معاملے پر جے آئی ٹی کو فیصلہ کرنے دیا جائے۔

سینیٹر بیرسٹر محمد سیف کا کہنا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ کسی بھی شخص کا فوری بیان، بالخصوص بچے کا بیان غلط نہیں ہوسکتا، پولیس کو جے آئی ٹی نہیں بنانی چاہیے تھی، جائے وقوع کو ضائع کردیا گیا جبکہ اگر اسلحہ نکلا تھا تو اسے بھی اب تک تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس افسر راؤ انوار نے بھی کئی جعلی انکاؤنٹرز کیے تھے جبکہ داخلی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی نے دعویٰ کیا تھا کہ افغانستان سے کالز نہیں مل سکتیں اور یہاں آپ بریفنگ میں کہہ رہے ہیں کہ افغانستان سے 2 کالز ریکارڈ کی گئیں۔

کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ جے آئی ٹی کلچر کا خاتمہ ہونا چاہیے جبکہ اراکین نے معاملے پر پارلیمانی عدالتی کمیشن بنانے پر بھی زور دیا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 31 جنوری 2019 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں