انتخابی دھاندلی کمیٹی کی تشکیل میں قانونی سقم کی نشاندہی

اپ ڈیٹ 31 جنوری 2019
کمیٹی کے چیئرمین پرویز خٹک نے نوٹیفکیشن میں ترمیم کی ہدایت جاری کردی—فائل فوٹو:ڈان نیوز
کمیٹی کے چیئرمین پرویز خٹک نے نوٹیفکیشن میں ترمیم کی ہدایت جاری کردی—فائل فوٹو:ڈان نیوز

اسلام آباد: انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے لیے قائم پارلیمانی پینل میں ٹرم آف ریفرنسز (ٹی آر اوز) کو حتمی شکل دینے سے قبل کمیٹی کی تشکیل کے جاری کردہ نوٹیفکیشن پر نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔

کمیٹی کے اجلاس میں نوٹیفکیشن میں تکنیکی سقم کی نشاندہی سابق وفاقی وزیر، اعظم سواتی نے کی، ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کی منظور کردہ قرار دار کے مطابق یہ پارلیمانی کمیٹی نہیں بلکہ خصوصی کمیٹی ہونی چاہیے۔

سیکریٹری کمیٹی کا کہنا تھا کہ نوٹیفکیشن کے مطابق یہ پارلیمانی کمیٹی تھی جس پر مسلم لیگ (ن) کے رانا تنویر نے بھی کہا کہ قرارداد کا متن جاری کردہ نوٹیفکیشن سے مختلف تھا۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابات میں’دھاندلی‘ کی تحقیقاتی کمیٹی کیلئے اپوزیشن کے ٹی او آرز پیش

دوسری جانب وفاقی وزیر برائے تعلیم شفقت محمود نے بھی کہا کہ نوٹیفکیشن میں ردوبدل کی ضرورت ہے، جس پر کمیٹی کے چیئرمین پرویز خٹک نے نوٹیفکیشن میں ترمیم کی ہدایت جاری کردی۔

اجلاس میں ٹی او آرز طے کرنے کے لیے بنائی گئی ذیلی کمیٹی کے کنوینر رانا تنویز نے رپورٹ پیش کی کہ 14 نومبر سے 13 دسمبر تک 4 اجلاس ہوئے، جس میں حکومت کے ایک جبکہ اپوزیشن کے 10 نکاتی ٹی او آرز پر بات چیت کی گئی لیکن اتفاق نہیں ہوسکا۔

چناچہ ذیلی کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ اب ٹی او آرز کا فیصلہ مرکزی کمیٹی ہی کرے گی اور فروری کے دوسرے ہفتے میں ہونے والے اجلاس میں ٹی او آرز کا حتمی فیصلہ کرلیا جائے گا جس میں سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین رحمٰن ملک بھی بریفنگ دیں گے۔

مزید پڑھیں: مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے حکومت کے ‘مختصر ترین‘ ٹی او آرز

اجلاس میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ کمیٹی اجلاس سے میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا اس میں چھپانے کی کیا بات ہے؟ یہ انتخابات کا معاملہ ہے جس کے بارے میں میڈیا کو معلوم ہونا چاہیے، 2018 کے انتخابات شفاف ہوئے ہیں، اس لیے میڈیا سے کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں۔

دوسری جانب رحمٰن ملک نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ کمیٹی کے اجلاس کی کارروائی اوپن ہونی چاہیے اور جب ضرورت محسوس ہو کمیٹی سربراہ ان کیمرا اجلاس کا اعلان کریں، جس پر اراکین نے معاملہ چیئرمین کی صوابدید پر چھوڑ دیا، جن کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ وقت آنے پر کرلیا جائے گا۔

اس سلسلے میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ انتخابات شفاف ہوئے تھے لہٰذا کمیٹی کی ضرورت نہیں تھی جس پر فواد چوہدری نے کہا کہ اپوزیشن نے دھمکی دی تھی کہ اگر کمیٹی نہیں بنائی گئی تو وہ ایوان کو چلنے نہیں دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابات میں 'دھاندلی' کی تحقیقات کے لیے 30 رکنی کمیٹی قائم

ان کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن ایوان کی کارروائی میں رکاوٹیں ڈال رہی تھی، ان کا کہنا تھا کہ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں کبھی کمیٹی نہیں بننے دیتا۔

اس موقع پر رحمٰن ملک نے تجویز پیش کی کہ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والے گواہان کو آنے جانے کا خرچہ دیا جائے جس سے فواد چوہدری نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس فنڈز کی کمی ہے جبکہ شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ گوہان اسکائپ پر اپنا بیان ریکارڈ کرواسکتے ہیں۔


یہ خبر 31 جنوری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں