حکومت صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نظام چلانا چاہتی ہے، اپوزیشن

اپ ڈیٹ 01 فروری 2019
2019 کے آرڈیننس نمبر 1 نیا سال کا تحفہ ہے، شیری رحمٰن — فائل فوٹو
2019 کے آرڈیننس نمبر 1 نیا سال کا تحفہ ہے، شیری رحمٰن — فائل فوٹو

اسلام آباد: اپوزیشن نے سینیٹ میں حکومت پر ملک کو صدارتی نظام سے چلانے کا الزام لگاتے ہوئے ایوان بالا سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔

یہ معاملہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما شیری رحمٰن کی جانب سے اٹھایا گیا جنہوں نے الیکشن (ترمیم شدہ) آرڈیننس 2018 کے نفاذ پر اعتراض کیا۔

انہوں نے 2019 کے آرڈیننس نمبر 1 کو ’نئے سال کا تحفہ‘ قرار دیا اور اس کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشنز ایکٹ میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کی گئی جسے بل کے ذریعے بھی کیا جاسکتا تھا۔

مزید پڑھیں: ’صدرارتی آرڈیننس کے ذریعے حکومت کرنے کی کوشش کی بھرپور مزاحمت کریں گے‘

انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ’پاکستان کو آرڈیننس کے ذریعے چلانے‘ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم دیکھیں گے کہ کیسے ملک آرڈیننس کے ذریعے چلتا ہے اور حکومت کو تجویز دی کہ وہ پارلیمنٹ کے وقار کو مجروح نہ کرے‘۔

قائد ایوان شبلی فراز نے البتہ آرڈیننس کے نفاذ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس کو 2 جنوری کو نافذ کیا گیا تھا جب پارلیمنٹ میں اجلاس نہیں ہورہا تھا۔

انہوں نے اپوزیشن کو غیر ضروری معاملات اٹھانے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ صدارتی آرڈیننس غیر قانونی اور غیر آئینی نہیں اور یہ 4 ماہ میں پارلیمنٹ سے منظور نہ ہونے پر ناقابل عمل ہوجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن بینچز سے متعلق صدارتی آرڈیننس نافذ

ان کے ریمارکس کے بعد اپوزیشن نے ایوان سے واک آؤٹ کیا جس کے بعد چیئرمین نے گنتی کا حکم دیا جس سے معلوم ہوا کہ ایوان میں کورم پورا نہیں۔

کورم کی گھنٹی کو 5 منٹ تک بجایا گیا جس کے بعد بھی کسی کے نہ آنے پر اجلاس کو 30 منٹ کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

قبل ازیں ’پاکستان کے بڑھتے ہوئے قرضے‘ پر توجہ دلاؤ نوٹس پر شیری رحمٰن نے حکومت کو معاشی امور میں غلط فیصلے کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے بیرونی اور اندروانی قرضے روز بروز بڑھ رہے ہیں، ہمارے اندرونی قرضے جون 2018 تک 5.5 فیصد بڑھے جبکہ بیرونی قرضے 17 فیصد تک بڑھے ہیں اور اب حکومت نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ اسلامک بینکوں سے 400 ارب روپے لیے ہیں تاکہ گردشی قرضوں کو کم کیا جاسکے‘۔

انہوں نے کہا کہ ملک کو قرضوں پر اور قرضے لے کر معیشت پر مزید دباؤ ڈالنے والی پالیسیوں سے نہیں چلایا جاسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت معیشت کو ایک خطرناک گڑھے میں دھکیل رہی ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔

’حکومت کے ریوینیو اس کے اخراجات سے بہت کم ہیں، انہوں نے ملک کو قرضے سے چھٹکارہ دلاکر خودمختار ملک بنانے کے بڑے دعوے کیے تھے تاہم ایسا صرف اس وقت ممکن ہے جب وہ یہ دکھائیں کہ وہ اپنے ذخائر سے کیسے اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں‘۔


یہ خبر ڈان اخبار میں یکم فروری 2019 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں