جنوری 2019: 'مہنگائی میں 7 فیصد سے زائد اضافہ'

اپ ڈیٹ 02 فروری 2019
مہنگائی میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ خوراک و توانائی کے علاوہ دیگر چیزوں کی قیمت میں اضافہ ہے—فائل فوٹو:ڈان نیوز
مہنگائی میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ خوراک و توانائی کے علاوہ دیگر چیزوں کی قیمت میں اضافہ ہے—فائل فوٹو:ڈان نیوز

اسلام آباد: روپے کی قدر میں تیزی سے ہونے والی کمی کی وجہ سے ابتدا میں حاصل ہونے والے فوائد کے ثمرات زائل ہوگئے جس کے نتیجے میں سال 2019 کے پہلے ماہ میں ہی مہنگائی میں 7.2 فیصد کا اضافہ ہوگیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس (پی بی ایس) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس اکتوبر میں ملک میں مہنگائی کی شرح نے 4 سال کی انتہائی بلند سطح 6.78 فیصد کو عبور کرلیا تھا۔

جس کے بعد نومبر اور دسمبر میں عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث بڑے شہروں میں پھلوں اور سبزیوں کی قیمت کے اعتبار سے مہنگائی میں معمولی سی کمی ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان،شرح سود میں 0.25 فیصد اضافہ

واضح رہے کہ حکومت نے مالی سال 19-2018 کے لیے مہنگائی کی سطح 6 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا تھا لیکن جنوری میں ہی مہنگائی نے اس سطح کو عبور کرلیا جبکہ مالی سال 2018 میں مہنگائی کی شرح 3.92 اور اس سے قبل کے مالی سال میں 4.16 فیصد تھی۔

گزشتہ 2 سال سے خام تیل کی قیمتوں میں اضافے، روپے کی قدر میں کمی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سخت مانیٹری پالیسی کی بدولت مہنگائی میں اضافہ ہوا۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں 0.25 فیصد کے اضافے کے بعد شرح سود 10.25 فیصد ہوگئی جو 6 سالوں کی بلند ترین سطح پر ہے، اسٹیٹ بینک نے گزشتہ برس جنوری سے اب تک اس میں کل 4.50 فیصد کا اضافہ کیا۔

مزید پڑھیں: پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

دوسری جانب مہنگائی میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ خوراک اور توانائی کے علاوہ دیگر چیزوں کی قیمت میں اضافہ ہے، جو کور انفلیشن کہلاتا ہے اس میں خوراک اور توانائی کی قیمتوں کی پیمائش نہیں کی جاتی۔

کور انفلیشن کی سطح سالانہ جائزہ لیا جائے تو یہ 8.7 فیصد تک پہنچ چکی ہے جس میں ماہانہ بنیادوں پر 1.1 فیصد اضافہ ہورہا ہے، سخت مانیٹری پالیسی کے باوجود کور انفلیشن گزشتہ چند ماہ سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔

رواں برس جنوری میں خوراک کے شعبے میں سالانہ بنیاد پر 2.4 فیصد مہنگائی ہوئی جبکہ طویل عرصے تک خراب نہ ہونے والی خوراک کی قیمتوں میں 4.7 فیصد اور جلد خراب ہونے والی خوراک کی قیمت میں 16.6 فیصد اضافہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی حکومت نے 7 ماہ میں اسٹیٹ بینک سے 4 گنا زائد قرض لیا، رپورٹ

جنوری میں جن چیزوں کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ان میں ٹماٹر (27.55 فیصد)، لہسن (22.83 فیصد)، بروفین دوا (14.02 فیصد)، چینی (3.15 فیصد)، فلیجل دوا (5.51 فیصد)، دال مونگ (2.73 فیصد) شامل ہیں۔

دوسری جانب چکن کی قیمت میں 18.06 فیصد کمی ہوئی اسی طرح آلو کی قیمت 15.01 فیصد، مٹر 11.36 فیصد، لیموں 9.92 فیصد، پیاز 5.50 فیصد، بند گوبھی 5.17 فیصد اور انڈوں کی قیمت میں 1.27 فیصد کمی ہوئی۔

علاوہ ازیں خوراک سے ہٹ کر دیگر اشیا کی قیمتوں میں مہنگائی کی شرح میں 10.5 فیصد اضافہ ہوا جس کی سب سے بڑی وجہ ایندھن کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ہے۔

مزید پڑھیں: مالی خسارہ دور کرنے کے لیے منی بجٹ کے مجوزہ اقدامات ناکافی قرار

خیال رہے کہ 2018 انتخابات کا سال ہونے کی وجہ سے گزشتہ حکومت اور نئی حکومت دونوں نے عوام کی تنقید سے بچنے کے لیے قیمتوں میں اضافے پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں پیٹرول کی موجودہ قیمت تقریباً وہی ہے جو تیل برآمد کرنے والے ممالک میں ہے۔

اس اقدام کے باعث نہ صرف مالی کے بوجھ میں اضافہ ہوا بلکہ پیٹرول کی مانگ بھی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں