اسلام آباد: زیر حراست سماجی کارکن گلالئی اسمٰعیل رہا

اپ ڈیٹ 07 فروری 2019
گلالئی کے خلاف صوابی میں ایف آئی آر درج تھی —فائل فوٹو
گلالئی کے خلاف صوابی میں ایف آئی آر درج تھی —فائل فوٹو

اسلام آباد پولیس نے سماجی رکن گلالئی اسمٰعیل کو حراست میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ گلالئی کی رہائی سے متعلق ضلعی انتظامیہ نے تصدیق کردی تاہم پشتون تحفظ موومنٹ کے گرفتار 17 افراد کو اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاک فوج اور پشتون تحفظ موومنٹ کے درمیان خلیج بڑھنے لگی

واضح رہے کہ گلالئی اسمٰعیل گزشتہ روز اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر سے پی ٹی ایم کے رہنما ارمان لونی کی متنازع موت کے خلاف جاری احتجاج میں شریک تھیں۔

گلالئی کے والد نے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کی بیٹی کو نیشنل پریس کلب کے باہر سے گرفتار کرکے جی9 میں وومن پولیس اسٹیشن میں منتقل کردیا۔

خیال رہے کہ صوابی پولیس نے 13 اگست 2018 کو پی ٹی ایم کے 19 رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس میں منظور پشتین سمیت گلالئی نے بھی خطاب کیا تھا۔

اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ نے بتایا کہ 25 افراد کو ایک روز قبل پریس کلب کے باہر مظاہرہ کرنے کے دوران گرفتار کیا گیا۔

بعدازاں تصدیقی عمل مکمل ہونے کے بعد 17 افراد کو اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاک فوج اور پشتون تحفظ موومنٹ کے درمیان خلیج بڑھنے لگی

ضلعی انتظامیہ کے مطابق تین ایم پی او کے تحت 17 افراد 15 روز تک اڈیالہ جیل میں نظر بند رہیں گے تاہم خاتون گلالئی اسمعیل کو رہا کر دیا گیا

اس سے قبل گلالئی کے والد پروفیسر محمد اسمٰعیل نے ڈان کو بتایا تھا ’ہم گلالئی کے بارے میں جاننے کی کوشش کررہے ہیں لیکن پولیس بتانے سے گریزاں ہے‘۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں اسلام آباد میں گلالئی کو ائیر پورٹ حکام نے لندن سے واپسی پر حراست میں لے لیا تھا تاہم پاسپورٹ تحویل میں لینے کے بعد ضمانت پر چھوڑ دیا تھا۔

مزیدپڑھیں: لاہور: پشتون تحفظ موومنٹ کی ریلی سے قبل کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن

خیال رہے کہ گلالئی اسمٰعیل پشتون اور حقوق نسواں کی سماجی کارکن ہیں اور انہیں 2017 میں عالمی ایوارڈ بھی ملاتھا۔

انہوں نے 2002 میں اپنی بہن صباء اسمٰعیل کے ساتھ مل کر ’لڑکیوں کے لیے آگاہی‘ پروگرام چلانے کے لیے این جی او تشکیل دی تھی۔

مذکورہ این جی او کے تحت خصوصی طور پر لڑکیوں اور خواتین کو لیڈر شپ اسکلز کے کورسز کرائے جاتے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں