اوگرا اور گیس کمپنیوں نے اضافی بل کا ذمے دار حکومت کو قرار دیدیا

اپ ڈیٹ 07 فروری 2019
گیس کے اضافی بلوں کے سبب عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے— فائل فوٹو: اے پی پی
گیس کے اضافی بلوں کے سبب عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے— فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: گیس کمپنیوں اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے اضافی گیس بل کا ذمے دار حکومت کو قرار دے دیا۔

کابینہ سیکریٹریٹ میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز کے قائم مقام ڈائریکٹر عامر طفیل نے کہا کہ صارفین کو غلط بل نہیں بھیجے گئے بلکہ حکومت کی جانب سے ٹیرف میں اضافے کے سبب واجبات میں اضافہ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: صارفین اضافی گیس بل قسطوں میں ادا کر سکتے ہیں، وزیر پیٹرولیم

انہوں نے سینیٹرز کو بتایا کہ گیس کمپنیاں اور اوگرا اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے، جن صارفین کو 20ہزار سے زائد کے بل بھیجے گئے ہیں، ہم نے انہیں سہولت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ 4 اقساط میں اس رقم کی ادائیگی کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ صارفین اپنے چولہے 24 گھنٹے چلاتے ہیں جس کے باعث وہ بل کی ادائیگی کے اوپری سلیب میں چلے گئے ہیں اور نتیجتاً انہیں زائد رقم ادا کرنی پڑے گی، البتہ آنے والے دنوں میں گیس کے استعمال میں کمی کی وجہ سے بلوں میں کمی واقع ہو گی۔

دوران اجلاس اوگرا کی چیئرپرسن عظمیٰ عادل نے بتایا کہ اوگرا نے ضروری آمدن کا جائزہ لینے کے بعد تفصیلات وزارت پیٹرولیم کو بھیجیں، جس نے انہیں حکومت کو ارسال کیا جس کے بعد حکومت نے قیمتوں اور سلیب میں اضافے کا حتمی فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک ایم ایم بی ٹی ٹی یو کی لاگت 630 روپے ہے لہٰذا اوگرا نے 3 سلیب تجویز کیے اور یہ بھی تجویز پیش کی گئی کہ 50فیصد لاگت کو پہلے سلیب کے ذریعے ہی حاصل کیا جائے، دوسرے سلیب میں 100فیصد رقم لی جائے جبکہ تیسرے سلیب میں فی ایم ایم بی ٹی یو 780 روپے چارج کیے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

تاہم عظمیٰ عادل کا کہنا تھا کہ اس کے برعکس حکومت نے 7سلیب بنا دیے اور آخری 2 سلیب میں قیمت میں 143فیصد تک اضافہ کردیا گیا، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ بلوں میں اضافے کی وجہ موسم سرما میں گیس کے استعمال کا طریقہ ہے کیونکہ ہم نے سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کو ہدایت کی تھی کہ وہ لوگوں کو آگاہی فراہم کرے کہ گیس کو کس طرح سے بچایا جا سکتا ہے۔

اس موقع پر ایڈیشنل سیکریٹری پیٹرولیم تنویر قریشی نے کہا کہ اس معاملے پر تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس کی رپورٹ 7دن میں مکمل کر لی جائے گی اور اس میں قیمتوں کی تفصیلات بیان کی جائے گی۔

اجلاس کے دوران ایک سوال کے جواب میں تنویر قریشی کا کہنا تھا کہ گیس کی فراہمی میں گھریلو صارفین کو ترجیح دی گئی ہے جس کے بعد ٹیکس میں استثنیٰ حاصل کرنے والی صنعت اور پاور پلانٹ، کھاد کی صنعت، سیمنٹ کی صنعت اور پھر سی این جی کا شعبہ ہے۔

سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر روبینہ خالد نے موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ گیس کے بلوں میں اضافے کے سبب عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو جو بل موصول ہوئے ہیں ان میں واجبات 5 گنا زیادہ ہیں اور جب وہ سوئی گیس کے دفتر جاتے ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ پہلے بل کی ادائیگی کریں جس کے بعد اس بات کو دیکھا جائے گا کہ یہ چارجز درست ہیں یا پھر گیس ریڈنگ نوٹ کرنے میں غلطی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ میں اوگرا کو تجویز پیش کرتی ہوں کہ وہ نگراں ادارے کی حیثیت سے اس معاملے کو دیکھے۔

دوسری جانب کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر طلحہ محمود نے گیس کمپنیوں کو ہدایت کی کہ عوام میں آگاہی پیدا کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ صوبوں میں جہاں کہیں بھی گیس کی کمی ہے، اسے پورا کیا جائے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم نے گھریلو صارفین کیلئے گیس کے نرخ میں اضافے کانوٹس لے لیا

اس موقع پر سینیٹر ڈاکٹر اسد اشرف نے کمیٹی کو ایک بل دکھایا جس میں 180 سے 200 روپے کے بلوں کی نشاندہی کی گئی تھی جسے یکدم بڑھا کر 2ہزار روہے کردیا گیا تھا۔

اجلاس میں شریک ایک اور فرد نے کہا کہ انہیں 2 ماہ تک 6 ہزار روپے کا بل موصول ہوا جس کے بعد بل یکدم اضافے سے 18ہزار اور پھر 32ہزار تک پہنچ گیا۔


یہ خبر 7 فروری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (2) بند ہیں

Talha Feb 07, 2019 10:40am
Ghalat....hidden charges....... hiee sab sey badiee waja hai Bijli aur Gas kie billon ka bahot hiee ziyada honay mein......
KHAN Feb 07, 2019 10:22pm
ہمارے گھر میں گیس کا مناسب استعمال ہوتا ہے ، ہمارا بل تو مناسب آیا ہے، جن گھروں میں 24 گھنٹے چولہے اور گیزر جلائے جاتے ہیں ان کو زیادہ بل ادا کرنا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ گیس چوری کا خاتمہ ضروری ہے، تاہم تمام گیس چوری نہیں ہورہی بلکہ لیکیج بھی ایک اہم وجہ ہے، مثلاً کراچی کی کچی آبادیوں میں سڑکوں کے دونوں جانب نالیاں ہوتی ہیں، اور سڑک کے درمیان گیس کی بڑی لائن ، اس لائن سے گھروں کو دونوں اطراف کنکشن دیے جاتے ہیں، یہ کنکشن ان نالیوں میں سے گزرتے ہیں اور گل سڑ جاتے ہیں، اس سے گیس لیک ہوجاتی ہے، جس کو شکایت کے باجود ٹھیک نہیں کیا جاتا، سوئی سدرن کا کوئی بھی پی آر او نام و نمبر کے ساتھ تبصرے میں جواب دے دیں تو ان کو شکایت نمبر کے ساتھ آگاہ کردیا جائے گا، اسی طرح کئی گھروں کے تو میٹر بھی گل سڑ یا پھر کچھ کے چوری ہو چکے ہیں، یہ صارفین شکایت کے بعد لائن سے ڈائریکٹ گیس استعمال کررہے ہیں کیونکہ کمپنی کی جانب سے کوئی میٹر تبدیل کرانے نہیں آیا۔ ایک بات اور کہ کارخانوں کو کیوں سستی گیس دی جاتی ہے، ٹیکس ان کو کم کرانا ہے، بجلی، پانی کے نرخ بھی کم چاہیے۔ لیبر قوانین پر عمل نہیں کرنا، آخر کیوں!