سانحہ ساہیوال: لاہور ہائی کورٹ کا جوڈیشل کمیشن بنانے پر حکومت سے جواب طلب

اپ ڈیٹ 07 فروری 2019
عدالت نے سانحے کے عینی شاہدین کے بیانات  بھی فوری قلمبند کرنے کا حکم دیا۔
— فوٹو: ڈان نیوز
عدالت نے سانحے کے عینی شاہدین کے بیانات بھی فوری قلمبند کرنے کا حکم دیا۔ — فوٹو: ڈان نیوز

لاہور ہائیکورٹ میں سانحہ ساہیوال میں جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے وفاقی کمیشن کے قیام کے حوالے سے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔

عدالت نے سانحے کے عینی شاہدین کے بیانات بھی فوری قلمبند کرنے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردار محمد شمیم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت عدالت میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ ڈی آئی جی اعجاز شاہ رپورٹ سمیت ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے۔

عدالت میں مقتول ذیشان کے ورثا سمیت دیگر درخواست گزار بھی پیش ہوئے۔

عدالت نے سوال کیا کہ وفاقی حکومت نے جوڈیشل کمیشن بنانے کے حوالے سے کیا اقدامات کیے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جوڈیشل انکوائری کے لئے ایک درخواست ملی ہے تاہم متاثرہ فریق نے درخواست نہیں دی۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: سانحہ ساہیوال کی تفتیشی رپورٹ پیش نہ کرنے پر جے آئی ٹی سربراہ کی سرزنش

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت سے جے آئی ٹی کی پیش رفت بارے رپورٹ طلب کررکھی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ متاثرہ فریق کا درخواست دینا ضروری نہیں، جو درخواست حکومت کو ملی ہے اس پر جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ کیا جانا چاہیے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ واقعے پر کس کس کا بیان قلمبند کیاگیا جس پر ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل عبد الصمد نے بتایا کہ ابھی تک کسی چشم دید گواہ کا بیان قلمبند نہیں ہوا۔

چیف جسٹس سردار شمیم خان نے بیانات قلم بند نہ کیے جانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ سیشن جج سے معاملہ کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دے سکتے ہیں۔

وفاقی حکومت نے کمیشن بنانے کے حوالے سے جواب دینے کے لیے 7 روز کی مہلت مانگی جسے عدالت نے قبول کرلیا اور پولیس کو موقع کے گواہان کے بیانات قلمبند کرنے کا حکم بھی جاری کیا۔

عد الت نے آئندہ سماعت پر جے آئی ٹی کو پیش رفت رپورٹ بھی پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 14 فروری کے لیے ملتوی کر دی۔

اس سے قبل 4 فروری کو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار شمیم نے سانحہ ساہیوال سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ کو تفتیشی رپورٹ پیش نہ کرنے پر ان کی سرزنش کی تھی۔

24 جنوری 2019 کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سردار شمیم نے سانحہ ساہیوال کی عدالتی تحقیقات کی درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے تھے کہ پنجاب میں اس طرح کا واقعہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے اور ساتھ ہی انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب امجد جاوید سلیمی کو تمام ڈی پی اوز کو اس حوالے سے ہدایات دینے کا حکم دیا تھا۔

22 جنوری کو لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ساہیوال پر عدالتی تحقیقات کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) پنجاب امجد جاوید سلیمی کو طلب کیا تھا۔

ساہیوال واقعہ

19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال: تاریخ میں پہلی بار پنجاب اسمبلی کو اِن کیمرا بریفنگ

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست تھے۔

بچے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس واقعے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ’اس واقعے میں جو بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔

تاہم واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

بعد ازاں وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا۔

وزیر قانون پنجاب کا کہنا تھا کہ گاڑی کو چلانے والے ذیشان کا تعلق داعش سے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے مؤقف کے مطابق ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال: سینیٹ کمیٹی اور ورثا کا جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ

راجہ بشارت نے کہا تھا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کےقتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا۔

تاہم وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ذیشان کے بھائی احتشام کا کہنا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں پڑی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔

جس کے بعد پولیس کی جانب سے ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے، جس کے بعد احتجاج ختم ہوگیا تھا۔

بعد ازاں سانحے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی نے 72 گھنٹے کی ڈیڈ لائن مکمل ہونے پر ابتدائی رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب کو پیش کردی تھی۔

رپورٹ پر بریفنگ دیتے ہوئے وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق خلیل اور اس کے اہل خانہ بے گناہ تھے جبکہ انہوں نے ذیشان کے حوالے سے مزید تفتیش کیلئے مہلت طلب کی تھی۔

راجہ بشارت نے ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے آپریشن کو 100 فیصد درست قرار دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں