سعودی ولی عہد نے جمال خاشقجی کے خلاف ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی

اپ ڈیٹ 08 فروری 2019
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے خلاف ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی تھی — فائل فوٹو
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے خلاف ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی تھی — فائل فوٹو

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے امریکی انٹیلی جنس ایجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ استنبول میں قائم قونصل خانے میں قتل سے ایک برس قبل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے خلاف ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی تھی۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکی قانون سازوں نے اس نئے انکشاف کے بعد جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق سعودی عرب کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اخبار کے مطابق امریکی انٹیلی جنس سمجھتی ہے کہ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی ولی عہد جمال خاشقجی کے قتل کے لیے تیار تھے، ہوسکتا ہے کہ ان کا مطلب صحافی کو قتل کرنا نہ ہو۔

دی ٹائمز کے مطابق یہ بات امریکا کی قومی سیکیورٹی ایجنسی اور دیگر ایجنسیوں کی جانب سے معمول کی کارروائی کے دوران اتحادیوں سمیت عالمی رہنماؤں کی بات چیت سننے اور جمع کرنے کے تحت ریکارڈ کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: خاشقجی قتل: اقوام متحدہ کی ٹیم کا استنبول میں سعودی قونصل خانے کا دورہ

اس بات چیت کو حال ہی میں امریکی انٹیلی جنس کی جانب سے جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی ولی عہد کے ملوث ہونے سے متعلق ٹھوس شواہد کی تلاش کے لیے تحریر کیا گیا تھا۔

اخبار کے مطابق یہ بات سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ان کے ماتحت ترکی الدخیل کے درمیان ستمبر 2017 میں جمال خاشقجی کے قتل سے 13 ماہ قبل ہوئی تھی۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ اگر جمال خاشقجی سعودی عرب واپس نہیں آتے تو انہیں طاقت کے زور پر واپس لایا جائے گا اور اگر ان میں سے کوئی طریقہ کام نہیں کرتا تو پھر ہم ان کے خلاف ہتھیار کا استعمال کریں گے۔

یہ بات چیت اس وقت کی گئی تھی جب سعودی حکام جمال خاشقجی کی جانب سے کی گئی تنقید پر کافی برہم تھے اور اسی ماہ انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کے لیے کالم نگاری کا آغاز کیا تھا۔

جمال خاشقجی کی گمشدگی سے متعلق خبروں کو ابتدائی طور پر مسترد کرنے کے بعد سعودی عرب نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ قونصل خانے میں موجود ایک ٹیم نے صحافی کو قتل کیا تھا لیکن اس میں ولی عہد شامل نہیں تھے۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں امریکی سینیٹ کی خارجی تعلقات کمیٹی کے اراکین نے ایک بل پیش کیا تھا جس کے تحت ٹرمپ انتظامیہ کو جمال خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی ولی عہد نے دیا تھا یا نہیں اور ان کے خلاف اقدامات سے متعلق تعین کرنےکے لیے ایک سو 20 دن کا وقت دیا تھا جو 8 فروری کو ختم ہوجائے گا۔

اس سے قبل اقوام متحدہ کے عالمی ماہرین کی ٹیم کی سربراہ اگنیس کیلامارڈ نے گزشتہ روز ترکی کے دورے کے بعد کہا تھا کہ سعودی حکام نے ایک منصوبے اور سازش کے تحت واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی کو قتل کیا۔

کانگریس اقدام کے لیے تیار

امریکی سینیٹرز پر مشتمل ایک گروہ نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی میں کمی کا بل پیش کیا ہے جن میں ٹینکس،لانگ رینج فائٹر جیٹ اور خودکار ہتھیار شامل ہیں۔

بل میں جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث سعودی شہریوں پر پابندیوں، اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق اور یمن میں جاری جنگ پر رپورٹ کا مطالبہ کیا جائے گا۔

سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے اعلیٰ ڈیموکریٹ رابرٹ مینینڈیز نے کہا کہ ’ ایسا محسوس ہوتا ہےکہ ٹرمپ انتظامیہ جمال خاشقجی کے قاتلوں کے مکمل احتساب کے اصرار کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ یہ وقت ہے کہ کانگریس اس معاملے میں حصہ لے اور سعودی عرب سے تعلقات اور یمن میں سعودی قیادت میں جاری جنگ کے حقیقی نتائج کا جائزہ لے‘۔

یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی قتل کی تفتیش کیلئےاقوام متحدہ کی ٹیم تشکیل

مذکورہ بل کو ری پبلکن کے اعلیٰ سطح اراکین کی حمایت بھی حاصل ہے جس میں ٹرمپ کے قریبی سینیٹر لِنڈسے گراہم بھی شامل ہیں۔

گراہم نے کہا کہ ’ سعودی عرب ایک اسٹریٹیجک اتحادی ہے، لیکن سعودی ولی عہد کےرویے نے کئی طریقوں سے اس تعلق کے لیے توہین کی ہے جو میری نظر میں اسےنقصان دہ بنارہے ہیں‘۔

اس بل پر ایک سماعت کے ایوان نمائندگان میں اس کی منظوری کے قوی امکانات ہیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ اسے ویٹو کرسکتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ ولی عہد کے حامی ہیں

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے گزشتہ روز سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور عدل الجبیر سے ملاقات میں جمال خاشقجی کے قتل کا معاملہ اٹھایا تھا۔

تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے عوامی سطح پر یہ کہا تھا کہ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں سعودی ولی عہد جمال خاشقجی کے قتل کے ملوث ہیں یا نہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ سعودی اتحاد ہتھیاروں کی خرید اور ایران سے اختلاف کی وجہ سے واشنگٹن کے لیے فائدہ مند ہے۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان رابرٹ پلاڈینو نے گزشتہ برس 2 درجن سعودی حکام کے ویزا کی منسوخی اور دیگر 17 افراد کے اثاثے منجمد کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا پہلے ہی جمال خاشقجی کے قتل کے خلاف اقدامات کرچکا ہے۔

مزید پڑھیں: خاشقجی قتل: ’سعودی عرب کے ساتھ امریکا کے تعلقات آگے نہیں بڑھ سکتے‘

انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ ہم کانگریس سے مشورہ کریں گے اور جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ داران کے احتساب کے لیے کارروائی جاری رکھیں گے‘۔

وائٹ ہاؤس کے باہر انسانی حقوق کے علمبرداروں کے 6 گروہوں بشمول ہیومن رائٹس واچ، رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ نے ایک مشترکہ بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ سے جمال خاشقجی کے قتل پر سینٹرل انویسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) کے ریکارڈ جاری کرنے، غیرجانبدار تحقیقات کی حمایت کرنے اور سعودی عرب میں قید صحافی اور انسانی حقوق کے کارکنان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنے پر اصرار کیا ہے۔

جمال خاشقجی کا قتل اور بعد میں کیا ہوا؟

خیال رہے کہ سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے۔

تاہم 2 اکتوبر 2018 کو وہ اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں آئے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔

تاہم ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔

اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔

جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔

اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔

17 اکتوبر 2018 کو سعودی صحافی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا۔

بعد ازاں سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے 'قربانی کا کوئی بکرا' ڈھونڈ ہی لیں گے۔

دریں اثناء 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔

نومبر 2018 میں امریکی سینیٹ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار قرار دینے سے متعلق قرارداد منظور کی تھی۔

گزشتہ ماہ 3 جنوری 2019 کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کی عدالت میں سعودی صحافی کے قتل کے مقدمے کی پہلی سماعت ہوئی تھی جس کے دوران اٹارنی جنرل نے 11 میں سے 5 مبینہ قاتلوں کی سزائے موت کا مطالبہ کیا تھا۔

اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گیٹریس نے جمال خاشقجی کے قتل کی ’قابلِ اعتبار‘ تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں