پاکستان نے ملا برادر کو امریکا کی درخواست پر رہا کیا، زلمے خلیل زاد

اپ ڈیٹ 09 فروری 2019
زلمے خلیل زاد کے مطابق پاکستان ایک اہم ملک ہے اور ہم پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
زلمے خلیل زاد کے مطابق پاکستان ایک اہم ملک ہے اور ہم پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

واشنگٹن: امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ افغان امن مذاکرات کو تیز کرنے میں مدد دینے کے لیے پاکستان نے افغان لیڈر ملا برادر کو ان کی درخواست پر رہا کیا تھا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ طالبان کے بانی رہنماؤں میں شامل ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کابل کی جانب سے طویل عرصے سے کیے جانے والے مطالبے کی تکمیل ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے لیے تقریباً ایک ماہ کے طویل امن مشن سے رواں ہفتے واپس لوٹنے والے زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ انہوں نے طالبان کے ساتھ افغانستان سے امریکی فورسز کی واپسی کے لیے شرائط پر تبادلہ خیال کیا لیکن اس معاملے میں ابھی کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔

واشنگٹن میں امن کے امریکی ادارے میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ گزشتہ ماہ دوحہ میں امریکا اور طالبان ایک فریم ورک معاہدے پر پہنچ گئے تھے لیکن حتمی نتائج تک پہنچنے کے لیے مزید بات چیت کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے ملا عبدالغنی برادر کو رہا کردیا، افغان طالبان

امریکا-طالبان مذاکرات کو آسان بنانے میں پاکستان کے کردار سے متعلق ایک سوال کے جواب میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ اسلام آباد نے ایک تعمیری کردار ادا کیا اور ’ان کی درخواست‘ پر ملا برادر کو رہا کیا۔

امریکی نمائندہ خصوصی کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملا برادر کی رہائی کی درخواست کی تھی کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ افغان امن کے آغاز میں سینئر طالبان رہنما بھی تعمیری کردار ادا کرسکتے ہیں۔

امن مذاکرات کے فروغ میں اسلام آباد کے کردار کو سراہتے ہوئے زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ایک اہم ملک ہے اور ہم پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں‘۔

اپنے خطاب کے دوران انہوں نے اپنے اس انتباہ کو دہرایا کہ افغانستان میں 40 سال پرانی جنگ کے خاتمے کے لیے ایک سے زائد ملاقاتیں ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیں: ملا عبدالغنی برادر کو افغانستان کے مطالبے پر رہا کیا گیا، امریکا

زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ افغانستان میں سابق حکومتیں، آیا وہ طالبان کی تھی یا کسی اور کی، وہ اس لیے ناکام ہوئیں کیونکہ انہوں نے اپنے نظریات نافذ کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ دوحہ میں انہوں نے اس فرق کا مشاہدہ کیا اور یہ احساس ہے کہ یہ نقطہ نظر کام نہیں کرے گا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ طالبان سمیت تمام فریقن اب ایک دوسرے کو جگہ دینے کو تیار ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان کی جانب سے بھی یہ کہا گیا تھا کہ امریکا اور طالبان کے درمیان گزشتہ ماہ ہونے والے مذاکرت تمام فریقین کے لیے ایک ’بڑی سفارتی فتح‘ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں