نقیب اللہ قتل کیس: 'اہم چشم دید گواہ کو لاپتا کردیا گیا'

09 فروری 2019
تفتیشی افسر کے مطابق اگر ملزمان کی ضمانتیں منسوخ نہ کی گئیں تو سب گواہ منحرف ہو سکتے ہیں — فائل فوٹو/ بشکریہ فیس بک پیج
تفتیشی افسر کے مطابق اگر ملزمان کی ضمانتیں منسوخ نہ کی گئیں تو سب گواہ منحرف ہو سکتے ہیں — فائل فوٹو/ بشکریہ فیس بک پیج

کراچی: نقیب اللہ قتل کیس کے تفتیشی افسر نے سندھ ہائیکورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان انتہائی سفاک، چالاک، بااثر اور طاقتور افسران رہے ہیں جنہوں نے واقعے کے اہم چشم دید گواہ کو لاپتا کردیا ہے۔

سندھ ہائیکورٹ میں نقیب اللہ قتل کیس میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار و دیگر کی ضمانتیں منسوخ کرنے سے متعلق معاملے پر سماعت ہوئی۔

دوران سماعت تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان احمد خان نے عدالت میں تہلکہ خیز انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ نقیب اللہ قتل کیس کے اہم چشم دید گواہ کو لاپتا کردیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کا حکم

تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان نے عدالت میں انکشاف کیا کہ راؤ انوار سمیت ملزمان انتہائی سفاک، چالاک، بااثر اور طاقتور افسران رہے ہیں اور انہوں نے واقعے کے واحد چشم دید گواہ کو لاپتا کرا دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چشم دید گواہ ملزمان کے اثرورسوخ کے باعث پہلے ہی بیان سے منحرف کرایا جاچکا تھا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ گواہ کا لاپتا کیا جانا ملزمان کے اثرورسوخ کا یہ منہ بولتا ثبوت ہے۔

تفتیشی افسر نے عدالت میں خدشات کا اظہار کیا کہ اگر ملزمان کی ضمانتیں منسوخ نہ کی گئیں تو سب گواہ منحرف ہو سکتے ہیں جبکہ ملزمان گواہوں کو ڈرا دھمکا کر بیان بدلنے پر بھی مجبور کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انتہائی موثر ڈیجیٹل شہادتوں سے ملزمان کو سزا ممکن ہے اور ساتھ ہی عدالت عالیہ سے استدعا کی کہ عدالت راؤ انوار و دیگر ملزمان کی ضمانتیں منسوخ کرنے سے متعلق مناسب حکم صادر فرمائے۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان عدالت میں پیش

خیال رہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے راوُ انوار اور سابق ڈی ایس پی قمر احمد شیخ کی ضمانت منظور کر رکھی ہے۔

ملزمان پر نقیب اللہ اور اس کے ساتھیوں کے اغوا، غیر قانونی اسلحہ رکھنے اور قتل کے الزامات ہیں۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

مزید پڑھیں: ڈان انویسٹی گیشن : راؤ انوار اور کراچی میں ’ماورائے عدالت قتل‘

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم بعد ازاں میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ معاملہ اٹھنے پر 19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود پر از خود نوٹس لیا تھا۔

جس کے بعد مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو پولیس حکام کے پیش ہونے کا موقع بھی دیا تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے اور سماعت کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

بعد ازاں چیف جسٹس کے حکم پر راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) میں ڈال دیا گیا تھا، جبکہ انہیں اسلام آباد سے سخت سیکیورٹی میں کراچی منتقل کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: پولیس کی جانب سے نامزد گواہ منحرف ہوگیا

اس کے بعد کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں انہیں پیش کیا گیا تھا، جہاں انہیں ایک ماہ کے لیے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

بعد ازاں 21 اپریل کو 2018 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم راؤ انوار کو سینٹرل جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا، تاہم عدالتی احکامات کے برخلاف ملیر کینٹ میں راؤ انوار کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے دیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ قیل کیس کے ملزمان راؤ انوار اور قمر احمد کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا، جس کے خلاف نقیب اللہ کے والد نے سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں