’مقدمے کے اندراج میں تاخیر کارروائی پر اثر انداز ہوتی ہے‘

11 فروری 2019
مقدمات کے اندراج میں تاخیر کی بڑی وجہ لوگوں کا جھوٹی شکایتیں درج کروانا ہے—فوٹو: ڈان
مقدمات کے اندراج میں تاخیر کی بڑی وجہ لوگوں کا جھوٹی شکایتیں درج کروانا ہے—فوٹو: ڈان

راولپنڈی: پولیس کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق املاک پر قبضے، ڈکیتی اور گاڑی چوری کے واقعات کی ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر سے واقعے کی حقیقت کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا ہوجاتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جائیدادوں پر قبضے کی شکایات متعدد ذرائع سے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) کے کمپلینٹ سیل میں اندراجِ مقدمہ کے لیے بھیجی جاتی ہیں، جو وہاں سے متعلقہ حکام کو ارسال کی جاتی ہیں تاکہ درست ہونے کی صورت میں مقدمہ درج کیا جاسکے۔

انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس نے 24 دسمبر سے 23 جنوری کے عرصے کے دوران املاک چھیننے پر مقدمات درج نہ ہونے کے خلاف آئی جی پی کے شکایتی مرکز میں کی گئی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے ضلعی پولیس افسران کو اس سلسلے میں ہدایات جاری کردیں۔

واضح رہے کہ آئی جی پی کے شکایتی سیل میں شکایت اس وقت کی جاتی ہے جب شکایت گزار متعلقہ تھانے اور ایس ڈی پی او میں درخواست دے چکا ہو۔

یہ بھی پڑھیں: 'ہزاروں کیسز کی بڑی وجہ غیر ضروری التوا، جھوٹی مقدمہ بازی ہے'

تاہم اس کے باوجود اگر کافی دن تک ایف آئی آر نہ درج کی جائے تو شکایت گزار اس کے بعد آئی جی پی کے شکایتی مرکز سے رابطہ کر کے املاک چھیننے کے مقدمے کے حوالے سے درخواست بھیج سکتا ہے۔

چنانچہ راولپنڈی میں ایسی شکایات کی ایک بڑی تعداد دیکھنے میں آئی جس کے تحت ایک سے 23 دن تک کے عرصے میں بھی مقدمے کا اندراج نہیں کیا گیا تھا۔

اس ضمن میں سپرنٹنڈنٹ پولیس راجہ عظمت نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ قانون کے مطابق ایف آئی بلا تاخیر درج ہوجانی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگ جھوٹی ایف آئی آر درج کرواتے ہیں خاص طور پر کار اور موٹر سائیکل چھننے کی تا کہ انشورنس کی رقم حاصل کرسکیں، اس طرح کے کیسز میں پولیس کو معاملے کی چھان بین کے لیے وقت درکار ہوتا ہے جس سے ایف آئی کے اندراج میں تاخیر ہوجاتی ہے۔

مزید پڑھیں: جھوٹی اطلاع دینے پر سزا اور جرمانہ ہوگا

دوسری جانب اس بارے میں پولیس کے ماہر قانون کا کہنا تھا کہ بعض اوقات پولیس خود املاک کے حوالے سے اندراجِ مقدمہ میں تاخیری حربے استعمال کرتی ہے کیوں کہ اس صورت میں پولیس کے لیے اس کی تحقیقات کرنا اور لوٹی ہوئی چیز برآمد کرنا لازم ہوجاتا ہے۔

ایک اور پولیس اہلکار نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگر لوگوں کا جھگڑا ہوجائے تب بھی املاک چھن جانے کی کہانیاں گڑھتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک بار کسی کا نام جھوٹی ایف آئی آر میں درج ہوجائے تو اس شخص کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا اس قسم کے کیسز میں مقدمے اندراج میں تاخیر کی جاتی ہے کیوں کہ جھوٹے مقدمات میں کبھی انصاف نہیں مل سکتا۔

چنانچہ املاک چھننے کے تقریباً 24 کیسز میں تاخیر پر آئی جی پی نے آر پی او راولپنڈی کو جرائم کے مقدمات کے اندراج کے معاملے کو دیکھنے کی ہدایت کی۔

یہ بھی پڑھیں: جھوٹی خبر کی نفسیات

ان میں کچھ کیسز ایسے بھی تھے جو پولیس تھانوں کے نزدیک علاقوں میں رونما ہوئے اور کچھ کیسز میں متاثر افراد نے تاخیر کے سبب اپنی شکایت واپس لے لی جبکہ ایسا بھی ہوا کہ جب لوگوں سے کہا گیا کہ مقدمہ درج ہونے کے باوجود ان کی لوٹی گئی اشیا واپس نہیں مل سکتیں جس پر انہوں نے درخواست واپس لی۔

تبصرے (0) بند ہیں