'اگر خواتین کو ہراساں ہونے سے نہیں بچا سکتے تو ہمیں شرم آنی چاہیے'

13 فروری 2019
عدالت کے مطابق قوانین ایسے بنائے جائیں کہ خواتین شکایات کا اندراج کرا سکیں — فوٹو: شٹر اسٹاک
عدالت کے مطابق قوانین ایسے بنائے جائیں کہ خواتین شکایات کا اندراج کرا سکیں — فوٹو: شٹر اسٹاک

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے خواتین کو ہراساں کرنے کے سد باب کے لیے بنائے گئے قانون کی تشریح کے لیے اٹارنی جنرل اور صوبائی حکومتوں سے جواب طلب کرتے ہوئے خواتین کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قانون کو مضبوط بنانے کی ہدایات کردی۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سابق وفاقی محتسب برائے ہراسانی خواتین یاسمین عباسی کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے جج کو بھیجے گئے توہین عدالت نوٹس کے معاملے پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے، یہ قانون کی تشریح کا معاملہ ہے اور صوبوں کو سننا بہت ضروری ہے۔

مزید پڑھیں: سوشل میڈیا پر خواتین کو ہراساں اور بلیک میل کرنے والا ملزم گرفتار

عدالت نے ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرل بین الاقوامی قوانین سے عدالت کو قانونی مدد فراہم کریں۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اگر خواتین کو ہراساں ہونے سے نہیں بچا سکتے تو ہمیں شرم آنی چاہیے، قوانین ایسے بنائے جائیں کہ خواتین شکایات کا اندراج کرا سکیں۔

وفاقی محتسب برائے ہراسانی خواتین کشمالہ طارق نے عدالت کو بتایا کہ سندھ میں شکایات صفر ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لوگ اس معاملے میں بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں، اگر شکایت نہیں آتی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسئلہ نہیں ہے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے خواتین کو اعتماد میں نہیں لیا، قانون کو اس طرح بنانا ہے کہ خواتین شکایات درج کرا سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں خواتین اساتذہ سے مرد ملازمین کے رابطے پر پابندی

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ صوبائی حکومتیں خواتین کو ہراساں کرنے کے سد باب کے لیے بنائے گئے قانون میں ترامیم نہ کریں تو اچھا ہے، ترمیم کرنی ہے تو اس قانون کو زیادہ مضبوط بنائیں۔

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ سرگوشیاں سنتے ہیں کہ اس قانون کو کمزور کیا جائے گا، جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ حکومت پنجاب اس قانون کو کمزور نہیں کرے گی۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم پریشان ہیں کہیں اس قانون کو کمزور نہ کردیا جائے، جس پر کشمالہ طارق کا کہنا تھا کہ تمام صوبوں سے خواتین کو ہراساں کیے جانے کے اعدادو شمار منگوائے جائیں۔

مزید پڑھیں: 82 فیصد خواتین بسوں میں ہراساں کیے جانے سے پریشان

بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل اور صوبائی حکومتوں سے قانون کی تشریح کے حوالے سے جواب طلب کرلیا، اس کے علاوہ عدالت نے خواتین کو کام کی جگہوں پر ہراساں نہ کرنے کے قانون کو مضبوط بنانے کی ہدایات بھی کردی۔

عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک کے لیے ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ سابق وفاقی محتسب برائے ہراسانی خواتین یاسمین عباسی نے لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس منصور علی شاہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں