چین: ایغور افراد کا لاپتہ رشتے داروں کی ویڈیو جاری کرنے کا مطالبہ

13 فروری 2019
ایغور، چینی حکام سے لاپتہ افراد کی ویڈیو جاری کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں — فوٹو: ارسلان ہدایت
ایغور، چینی حکام سے لاپتہ افراد کی ویڈیو جاری کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں — فوٹو: ارسلان ہدایت

چین کی جانب سے معروف ایغور موسیقار اور گلوکار عبدالرحیم حیات کی ہلاکت کی خبروں کے باوجود ان کی ویڈیو جاری کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر مسلم اقلیتی برادری ایغور نے اپنے لاپتہ رشتے داروں سے متعلق آگاہ کیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’ اے ایف پی ‘ کے مطابق عبدالرحیم حیات کی ویڈیو جاری ہونے کے بعد سے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ می ٹو ایغور MeTooUyghur# کے نام سے مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔

چین کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو میں ایغور شاعر اور موسیقار عبدالرحیم حیات نے کہا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور بالکل ٹھیک ہیں۔

خیال رہے کہ ترکی نے کہا تھا کہ انہیں چین کے حراستی کیمپ میں قید ایغور کے مشہور موسیقار اور شاعر عبدالرحیم حیات کی قید میں موت کا علم ہوا ہے جس کے بعد بیجنگ کی جانب سے عبدالرحیم حیات کی ویڈیو جاری کی گئی۔

مزید پڑھیں: ترکی کا چین سے ’حراستی مراکز‘ بند کرنے کا مطالبہ

فن لینڈ سے تعلق رکھنے والی ایغور برادری کے سرگرم کارکن مرات ہری نے کہا کہ ’چینی حکام نے ثبوت کے طور پر عبدالرحیم حیات کی ویڈیو دکھائی کہ وہ زندہ ہیں، اب ہم جاننا چاہتے ہیں لاکھوں ایغور کہاں ہیں؟‘۔

مرات ہری نے ہی سوشل میڈیا پر یہ ہیش ٹیگ MeTooUyghur# بنایا ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے والدین کو بھی ماضی میں قید کیا گیا لیکن انہیں گزشتہ برس رہا کردیا گیا تھا۔

ہیش ٹیگ کی وجہ سے دنیا بھر میں موجود ایغور افراد کی جانب سے والدہ،والد، بیٹوں، بیٹیوں یا دوستوں کی گمشدگی کی تصاویر پوسٹ کی گئیں اور ان کی سلامتی سے متعلق بتانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

امریکا میں مقیم سرگرم کارکن روشان عباس نے کہا کہ اکثر اوورسز ایغور سالوں سے چین میں مقیم اپنے رشتہ داروں اوردوستوں سے رابطے نہیں کرپاتے کیونکہ فون کالز اور میسیجنگ پلیٹ فارم چین کے زیر نگرانی ہیں۔

روشان عباس نے حکام سے اپنی بہن کی ویڈیو جاری کرنے کا مطالبہ کیا، ان کی بہن ایک ڈاکٹر ہیں جنہیں ’ووکیشنل ٹریننگ ‘ کے لیے بھیجا گیا تھا۔

اکثر ایغور طویل عرصے سے بیجنگ پر ان کی ثقافت کو ختم کرنے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں جبکہ چین انہیں سنکیانگ میں ’دہشت گردی‘ کا خطرہ قرار دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چین کی حراستی کیمپ سے 2 ہزار قازق اقلیتی شہریوں کو رہا کرنے پر آمادگی

ناقدین کا کہنا ہے کہ چین کے حراستی کیمپوں میں قید ایغور افراد کی چینی معاشرے سے ہم آہنگ ہونے اور مذہب ترک کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

معروف ایغور کامیڈین عادل میجیت کے داماد ارسلان ہدایت نے فیس بک پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں کہا کہ ان کے سسر لاپتہ ہیں۔

انہوں نے اپنے سسر اور چینی کیمپوں میں قید دیگر افراد کی ویڈیو جاری کیے جانے کا مطالبہ کیا۔

خیال رہے کہ ترکی نے 9 فروری کو جاری کیے گئے بیان میں چین کی جانب سے اقلیتی مسلم برادری ایغور سے روا رکھے جانے والے سلوک کو ’انسانیت کے لیے شرم ناک‘ قرار دیتے ہوئے ایغور مسلمانوں کے لیے بنائے گئے حراستی کیمپ فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

ترک وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ ہمیں ایغور کے مشہور موسیقار اور شاعر عبدالرحیم حیات کی قید میں موت کا علم ہوا، جنہیں اپنے ایک گانے کی وجہ سے 8 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔

11 فروری کو چین نے ترکی کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے انقرہ سے جھوٹے الزامات واپس لینے پر زور دیا تھا۔

یاد رہے کہ سنکیانگ میں 2009 میں ہونے والے خونی فسادات کے بعد چین نے وہاں کی مسلم برادری کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا تھا اور انہیں حکومت کے حراستی کیمپوں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

کریک ڈاؤن کے دوران بڑی تعداد میں ایغور مسلمان سفر کر کے ترکی پہنچے جہاں کی زبان اور ثقافت بالکل سنکیانگ جیسی ہے۔

مزید پڑھیں: چین: ‘ایغور اقلیت کو حراستی کیمپوں میں قید رکھنا خوفناک ہے‘

چین کی جانب سے کئی ماہ تک حراستی مراکز کی موجودگی کا انکار کیا جاتا رہا ہے لیکن عالمی دباؤ کے بعد چین نے ان حراستی مراکز کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں عارضی ٹریننگ سینٹر قرار دیا تھا۔

ابھی تک چین کی جانب سے اس بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں کہ ان حراستی مراکز میں کتنے لوگ موجود ہیں اور انہیں کب تک وہاں رکھا جائے گا۔

ماضی میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان چین پر ’نسل کشی‘ کا الزام لگا چکے ہیں لیکن ان دنوں چین اور ترکی کے درمیان اچھے معاشی اور سفارتی تعلقات ہیں۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی نسلی تعصب کے خاتمے کے لیے قائم کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ 10 لاکھ سے زائد ایغور اور دوسری مسلم اقلیتوں کے افراد چین کے صوبے سنکیانگ میں جنگی قیدیوں کے کیمپوں میں قید ہیں۔

اقوام متحدہ کی کمیٹی نے رپورٹ میں اس تعصب کو ’خطرناک' قرار دیا تھا کہ سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں کہ کتنے افراد طویل عرصے سے ان کیمپوں میں قید ہیں یا کتنے افراد کو سیاسی تعلیمی سینٹر میں مختلف وقت گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

چین نے اس رپورٹ کے رد عمل میں کہا تھا کہ ایغور مسلمانوں سے متعلق رپورٹ انسداد دہشت گردی کے تناظر میں بنائی گئی ہے جو حقائق کے منافی ہے۔

ایغور کون ہیں؟

چین کے جنوبی صوبے سنکیانگ میں مسلم اقلیتی برادری 'ایغور' آباد ہیں جو صوبے کی آبادی کا 45 فیصد ہیں۔

سنکیانگ سرکاری طور پر چین میں تبت کی طرح خودمختار علاقہ کہلاتا ہے۔

گزشتہ کئی عرصے سے ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ایغور سمیت دیگر مسلم اقلیتوں کو سنکیانگ صوبے میں قید کرلیا جاتا ہے لیکن چین کی حکومت ان خبروں کو مسترد کررہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں