ہمارے ملک میں چاند نظر آنے سے کوئی دن منانے تک کم ہی معاملات غیر متنازع ہیں۔ تنازع ہمارا پسندیدہ کھیل ہے۔ کوئی جگہ ہو یا کوئی موقع ہم ’آو تنازع تنازع‘ کھیلیں کہہ کر اس کھیل میں مگن ہوجاتے ہیں۔

لیٹے ہوئے مُردے کے پہلو سے مسلکی اختلاف اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کوئی بھی رسم یا عمل ایمان کا مسئلہ بن کر جان کو آجاتا ہے۔ شادی کے موقع پر بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ کار میں دلہا کے ساتھ کون بیٹھے گا کا سوال اتنا سنگین ہوجاتا ہے کہ بارات میں تاخیر کے باعث بے چارے دلہا کا دل بیٹھنے لگتا ہے۔ تنازعے کا یہ کھیل جب کسی دن منانے کے میدان میں کھیلا جاتا ہے تو ہر فریق دن منانے سے زیادہ اپنی بات منوانے میں جُت جاتا ہے۔

ویلنٹائن ڈے بھی ایک ایسا ہی موقع ہے۔ یہ دن ہمارے ہاں مغرب سے تازہ تازہ آیا ہے۔ کرنے والے اس سے پہلے بھی محبت کیے جارہے تھے، اگرچہ یہ یوم محبت نہیں مناتے تھے لیکن محبوبہ کو پورا سال مناتے تھے۔ پارک میں پکڑے جانے پر پولیس والوں کو منانا، خط بھیجنے کے لیے محلے کے کسی بچے کو منانا، آخرکار شادی کے لیے اپنے اور محبوبہ کے ماں باپ کو منانا اس کے علاوہ تھا۔

اتنا کچھ منانے والوں پر ویلنٹائن ڈے منانے کی رسم افتاد کی طرح آپڑی۔ اس دن کے چرچے نے ان کا خرچہ بڑھا دیا۔ ساتھ ہی ان لوگوں کے لیے یہ دن ’صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا’ کے مصداق ہوگیا جو اخلاق کی درستی یا کسی تیکنیکی خرابی کے باعث بھری جوانی میں بھی محبت نہیں کرتے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ’میں پھول اٹھا کر جاؤں کہاں اور چاکلیٹ لاؤں کس کے لیے۔‘

ایسے حضرات کا دل رکھنے، ویلنٹائن ڈے کی جینز پر مشرقی شلوار منڈھنے اور اس دن کے منانے پر ہونے والے اعتراضات کو شکست دینے کے لیے یہ فلسفہ تراشا گیا کہ بھئی محبت کا ایک ہی مطلب تھوڑی ہے یہ کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔ اس فلسفے کی روشنی میں اس دن کا دائرہ پھوپھو، پھوپھا، خالہ، خالو، چچی ساس، ماموں سُسر تک وسیع ہوگیا۔

بعض حضرات نے اس دن کو ’یوم حیا‘ قرار دے کر حیا کو ایک دن کے لیے مخصوص کردیا۔ چنانچہ ہم نے ویلنٹائن ڈے منانا چھوڑا اور ایک دن کے لیے باحیا ہونا شروع کردیا۔ جب بھی یومِ حیا آتا تو ہم نظریں زمین میں گاڑے اپنی حیا کو آزمانے کے لیے بھرے بازاروں کا رُخ کرتے اور ہماری سب سے زیادہ بے حیا ٹَکریں اسی دن ہوئیں، مگر قسم لے لو جو ہم نے ٹکرانے اور گالیاں کھانے کے باوجود بھی نظریں اُٹھائی ہوں۔

اب ایک یونیورسٹی نے ویلنٹائن ڈے پر بہنوں کا دن منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہوسکتا ہے اس یونیورسٹی کے طلبہ یہ دن گھر پر بہنوں کے ساتھ منائیں اور 14 فروری کو جامعہ یہ سوچ کر نہ آئیں کہ گھوڑا گھاس سے دوستی کرلے تو کھائے گا کیا؟

یوں بھی ہم کسی غیر خاتون کو اپنی بہن قرار دینا خدائی امور میں مداخلت تصور کرتے ہیں۔ قدرت کو منظور ہوتا تو ان خاتون کو ہماری بہن بنا دیتی۔ اگر کوئی خاتون ہمیں بھائی کہتی ہیں تو ہم اپنی صحافیانہ تربیت کے زیرِ اثر خود کو تسلی دے لیتے ہیں کہ ’مدیر کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔‘

اور صاحب! یوم بہن منانے والوں سے کوئی یہ حقیقت منوالے کہ کسی خاتون کی عزت و احترام کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ اسے بہن ہی سمجھا جائے، یہ رویہ اسے صرف خاتون اور انسان سمجھ کر بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال، اس یونیورسٹی کی پیروی میں ہم 14 فروری کو یوم بہن منائیں گے اور پورا دن امیر کبیر خواتین سے رابطے کرکے ان سے درخواست کرتے رہیں گے کہ بی بی! آپ ہماری اَدّی فریال تالپور یا علیمہ باجی بن جائیں، عین نوازش ہوگی۔

یونیورسٹی کے اس اقدام سے لگتا ہے کہ یومِ مادر اور یومِ پدر کی طرح اب یوم بہنا منانے کا سلسلہ بھی شروع ہوجائے گا۔ اس سلسلے کو صرف چند رشتوں تک کیوں محدود رکھیں، آئیے کچھ اور اہم رشتوں کے دن بھی منائیں:

یوم شوہر

اگر شوہر نامی مخلوق نہ ہوتی تو خواتین کھری کھری کِسے سناتیں اور موبائل فون سے پرس تک کھوج لگانے کی مصروفیت کیسے پاتیں؟ اب اتنا کچھ دینے والے شوہر کا دن منانا تو بنتا ہے ناں۔ سو کوئی بھی تاریخ مقرر کرکے یہ دن منانا شروع کردیا جائے۔ اس دن پر بطور تحفہ شوہروں کو بولنے کی آزادی دے دی جائے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں، شوہر بے چارے آدھے دن بولنے کی آزادی ملنے پر حیران رہیں گے اور باقی کے نصف دن پریشان رہیں گے کہ کیا بولیں؟ یوں یہ دن خیریت سے گزر جائے گا۔

یوم بیوی

یوں تو ہر دن بیوی کا ہوتا ہے، کیونکہ ہرروز بیوی کی مانی جاتی ہے، جس دن نہیں مانی جاتی تو اگلے کئی روز تک بیوی کو منایا جاتا ہے۔ پھر بھی بیویاں کسی بھی دن یہ نکتہ اعتراض اٹھا سکتی ہیں کہ اماں کا دن مناتے ہو بیوی کا نہیں، جاؤ میں نہیں بولتی۔ اس لیے یہ دن آنے سے پہلے ضروری ہے کہ بیویوں کا دن منانا شروع کردیا جائے۔ اس دن شوہر دل پر جبر کرکے فرمائش کے بغیر بیوی کی تعریف کریں، صبر کرکے بیوی سے اپنی برائیاں سنیں، بیوی کے سامنے اپنی بہنوں کی خوب غیبت کریں اور سسرال والوں کی تعریف کے ویسے ہی پُل باندھیں جیسے پُل حکومت بناتی ہے، یعنی اگلے ہی دن ٹوٹ جائیں تاکہ اگلے یومِ بیوی پر دوبارہ بنائے جاسکیں۔

یوم داماد

داماد کئی قسم کے ہوتے ہیں،

گھر داماد: یہ وہ نیک لوگ ہوتے ہیں جو بیٹی اور ماں باپ میں جدائی گوارہ نہیں کرتے، چنانچہ زندگی بھر سسرال میں گزارہ کرتے ہیں۔

سَر داماد: یہ ہر وقت سسرال والوں کے سَر پر آسیب کی طرح سوار رہتے ہیں۔ ان کا پتہ نہیں ہوتا کب کس بات پر ناراض ہوجائیں اور کب کیا فرمائش کردیں۔

سُدھر داماد: یہ دامادوں کی اعلیٰ ترین قسم ہے، یہ ہر چُھٹی والے دن بیوی کو میکے لے جانا فرض سمجھتے ہیں۔ سسرال کی کوئی شادی اور جنازہ مس نہیں کرتے۔ یہی نہیں بلکہ سسرال والوں کی آمد پر بیوی سے زیادہ دانت نکالتے ہیں۔

دَھر داماد: یہ وہ شریف لوگ ہوتے ہیں جن کے سر پر وہ بیٹی دھر دی جاتی ہے جو کسی طرح سدھرنے پر تیار نہیں ہوتی۔ ایک بار بیٹی دھر کر ولیمے کے فوری بعد ان پر بیٹی کی ہر خامی کا الزام یہ کہہ کر دھر دیا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں سے تو صحیح گئی تھی تمہارے رویے کی وجہ سے ایسی ہوگئی بے چاری۔

ساس کا دن

واضح رہے کہ یہ اس دن کی بات نہیں ہورہی دن گنے جاتے ہیں جس دن کے لیے۔ اس دن کے بعد تو ہر ایک کو اپنی ساس راس آجاتی ہے اور بہو ہو یا داماد ’کتنی اچھی تھیں‘ کہہ کر انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ ساس کے دن پر ان کے لیے بہو کی طرف سے سب سے اچھا تحفہ یہ ہوگا کہ وہ شوہر کو کسی بات پر غصہ دلا کر دل بھر کر اپنی بے عزتی کروائے اور داماد کا نذرانہ یہ ہوگا کہ بیوی کو ساس کے پاس چھوڑ کر پورے دن کے لیے شکل گُم کرلے۔

کچھ ضروری رشتوں کے دن ہم نے بتا دیے، اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ باقی کے رشتوں کے دن مناتے ہیں یا نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Basit Yamin Feb 14, 2019 06:21pm
ہمیشہ کی طرح جامی صاحب کا بہترین تنقیدی اور مزاح سے بھرپور مضمون.