سپریم کورٹ: بحریہ ٹاؤن کی 405 ارب روپے کی پیشکش بھی مسترد

اپ ڈیٹ 14 فروری 2019
سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل کو آخری مہلت دے دی — فائل فوٹو: ڈان
سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل کو آخری مہلت دے دی — فائل فوٹو: ڈان

سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس میں نجی کمپنیوں کا معاملہ نیب کو بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے کی گئی 405 ارب روپے کی نئی پیشکش کو بھی مسترد کردیا۔

جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس کی سماعت کی تو نجی مارکیٹنگ کمپنیوں کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی 250 ارب روپے کی پیشکش مسترد کردی

عدالت نے مارکیٹنگ کمپنیوں کی جانب سے نامکمل جواب جمع کرانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو تعاون کرنے کا کہا تھا، سیدھے طریقے سے کہا تھا کہ عدالت کو تفصیلات فراہم کر دیں لیکن مارکیٹنگ کمپنیاں عدالت سے تعاون نہیں کر رہیں۔

عدالت نے کہا کہ اگر آپ نے ہم سے تعاون نہیں کرنا تو ہم معاملہ نیب کو بھجوا دیتے ہیں، پھر نیب جانے اور کمپنی مالکان، عدالت سے تعاون نہیں کرنا تو نیب کے دفتر جا کر تفتیشی افسر کو تفصیلات فراہم کریں۔

عدالت کی جانب سے اظہار برہمی پر نجی مارکیٹنگ کمپنیی کے مالک روسٹرم پر آئے اور کہا کہ عدالت کو ایک چیز کی سمجھ نہیں آ رہی اسی لیے عدالت کو ایک چیز سمجھانا چاہتا ہوں، موقع دیں۔

اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہمیں سمجھ نہیں آئی تو آپ کو بھی سمجھ نہیں لگے گی، آپ کی جرات کیسے ہوئی عدالت سے براہ راست بات کرنے کی۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی کے قبضے میں موجود غیرقانونی زمین واگزار کروانےکا حکم

انہوں نے نجی کمپنی کے مالک سے استفسار کیا کہ تمہارا نام کیا ہے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ جی، میرا نام مسعود ہے۔

بینچ کے سربراہ نے نجی کمپنی کے مالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو، ایک لفظ بھی بولا تو جیل بھیج دوں گا، بہت سارے لوگوں کو غلط فہمی ہے جو دور ہو جائے گی۔

اعلیٰ عدالت نے نجی مارکیٹنگ کمپنیوں سے متعلق معاملہ نیب کو دیکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اب ہمیں کچھ نہیں لینا، ساری معلومات جا کر نیب کو دو، ہم نے آپ کو بہت موقع دیا لیکن آپ نے کچھ نہیں دیا۔

عدالت عظمیٰ میں سماعت کے موقع پر بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر بھی پیش ہوئے، جنہوں نے بحریہ ٹاؤن کی کراچی کے ہاؤسنگ منصوبے کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے 16 ہزار ایکڑ زمین کے عوض 405 ارب روپے کی نئی پیشکش کی تھی۔

انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 405 ارب کی ادائیگی 12 سال میں کی جائے گی جس میں پہلے 6 سال 2 ارب ماہانہ کی بنیاد پر اقساط ادا کی جائیں گی جبکہ آئندہ 6 سال میں 3 ارب ماہانہ ادا کیے جائیں گے۔

اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ 405 ارب میں رقم کی قدر کا معاملہ ہے، رقم کی موجودہ قدر و قیمت کو نظر انداز نہیں کر سکتے لہٰذا قسطوں کا معاملہ آپ کو دیکھنا ہو گا۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ کی کہی رقم 12 سال میں 3 گنا ہو جائے گی۔

جسٹس عظمت سعید نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 14-2013 میں آپ نے اس منصوبے کا آغاز کیا اور تقریباً 5 سالوں تک قسطوں کی صورت میں آپ کو پیسے مل گئے۔

انہوں نے کہا کہ آپ نے اس پیسے سے بہت کچھ بنایا لیکن بات بنتی نظر نہیں آ رہی، ہم نیٹ ویلیو سے آنکھیں بند نہیں کر سکتے اور وقت آ گیا ہے کہ اب اس کیس کا فیصلہ کریں کیونکہ یہ ریگولرائزیشن کا کیس ہے، تجاوزات کا نہیں۔

جسٹس عظمت سعید نے سوال کیا کہ نیب کی کارروائی کہاں تک پہنچی؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ریفرنس تیار ہو گئے ہیں، جلد کراچی میں دائر ہو جائیں گے۔

اعلیٰ عدلیہ کے جج نے سوال کیا کہ کتنے ریفرنس تیار ہوئے ہیں؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ایک ریفرنس کراچی کا تیار ہے جبکہ اس کے علاوہ چار اور ریفرنسز بھی دائر کیے جائیں گے۔

انہوں نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل کو آخری مہلت دیتے ہوئے کہا کہ 28 تاریخ کو آپ کے پاس آخری موقع ہے، 28 فروری تک بینچ موجود نہیں، ہم نیب کو کارروائی سے نہیں روک رہے اور نہ روکیں گے۔

عدالت نے مقدمے کی سماعت 28 فروری تک ملتوی کردی۔

بحریہ ٹاؤن کیس

4 مئی 2018 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ اور تبادلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو رہائشی، کمرشل پلاٹوں اور عمارتوں کی فروخت سے روک دیا تھا۔

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 1-2 کی اکثریت سے بحریہ ٹاؤن اراضی سے متعلق کیسز پر فیصلہ سناتے ہوئے اس معاملے کو قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیجنے اور 3 ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کی ضمانت منظور، رہائی کا حکم

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کو اراضی کا تبادلہ خلاف قانون تھا، لہٰذا حکومت کی اراضی حکومت کو واپس کی جائے جبکہ بحریہ ٹاؤن کی اراضی بحریہ ٹاؤن کو واپس دی جائے۔

عدالت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی تحقیقات کا بھی حکم دیا گیا تھا جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے درخواست کی گئی کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیں۔

بعد ازاں عدالت کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں دیے گئے فیصلے پر عمدرآمد کےلیے ایک خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

اس کیس میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اپنی زمین کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے پہلے 250 ارب روپے کی پیش کش کی تھی جسے مسترد کردیا تھا، جس کے بعد 16 ہزار ایکڑ زمین کے عوض 358 ارب روپے دینے کی پیشکش کی گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Feb 15, 2019 12:47am
(16000 ایکڑ زمین پر قبضہ کرنے کا مطلب ہے 64 مربع کلومیٹر اور اس کا آسان الفاظ میں مطلب ہے چاروں اطراف سے 8, 8 کلومیٹر لمبائی) 16 ہزار ایکڑ کے 405 ارب دینا تو مونگ پھلی کے مترادف ہے، اس کا مطلب ہے 25 لاکھ روپے فی ایکڑ اور 12 سال میں اس کا مطلب ہے 25 ہزار فی ایکڑ۔ بحریہ ٹائون کے انتہائی گھمبیر معاملات کے باوجود آج بھی وہاں 120 مربع گز کے پلاٹ کی قیمتیں کروڑوں میں ہے۔ بحریہ ٹائون کو ادائیگی کم از کم 4 گنا کرنا ہوگی۔ اسی طرح بحریہ ٹائون اور DHA نے کراچی کے لیے منظور شدہ کے 4 کی پائپ لائن سے پانی کی منظوری کرائی ہیں، ان کو کے 4 سے پانی دینے کے بجائے بحریہ اور DHA کے خرچے پر الگ سے پائپ لائن لگا کردی جائے۔ اگر ان کو کے فور سے پانی دیا گیا تو یہ کراچی پر ایک اور بہت بڑا ظلم ہوگا. یہ دونوں جب اپنا خرچ کرکے بجلی اور گیس کا بندوبست کرسکتے ہیں تو پانی کے لیے بھی ان کو خرچ کرکے لائن ڈلوانی چاہیے۔ اس طرح کی سوسائیٹوں سے پانی، بجلی اور گیس کی سہولت فراہم کرنے کے سلسلے میں ایڈوانس رقم وصول کی جانی چاہیے۔