ویلنٹائنز ڈے پر محبوب کے حصول کیلئے درخت کی پوجا

اپ ڈیٹ 16 فروری 2019
پوجا کی تقریب میں طلبہ کثیر تعداد میں شریک ہوتے ہیں—فوٹو: ٹائمز آف انڈیا
پوجا کی تقریب میں طلبہ کثیر تعداد میں شریک ہوتے ہیں—فوٹو: ٹائمز آف انڈیا

کہا جاتا ہے کہ محبت قسمت والوں کو ملتی ہے اور سچی محبت ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتی۔

محبت حاصل کرنے یا محبوب کی تلاش میں لوگ ایک سے دوسرے ملک کے سفر کرنے سمیت ناقابل یقین کام بھی کرتے ہیں۔

اور بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے ’ہندو کالج‘ کے طلبہ بھی ہر سال ویلنٹائنز ڈے کے موقع پر کچھ ایسا ہی منفرد کام کرتے ہیں۔

ہندو کالج کے طالب علم دراصل ہر سال ویلنٹائنز ڈے کے موقع پر کالج میں موجود قدیم درخت کی پوجا کرتے ہیں اور منت مانگتے ہیں کہ انہیں 6 ماہ کے اندر محبوب مل جائے۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق ہندو کالج کے طالب ہر سال اس درخت پر غبارے، کنڈوم اور رنگین ربن لٹکانے سمیت کسی خوبرو بولی وڈ اداکارہ یا ماڈل کی تصویر لٹکا کر اس کی عبادت کرتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس درخت کی پوجا کرنے والے طالب علموں میں کچھ لڑکیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔

پہلی بار اس عمل کی مخالفت شدت سے کی گئی—فوٹو: پنجرا توڑ فیس بک
پہلی بار اس عمل کی مخالفت شدت سے کی گئی—فوٹو: پنجرا توڑ فیس بک

درخت کی پوجا کرنے والے طالب علموں کو یقین ہوتا ہے کہ ان کی منت پوری ہوگی اور انہیں اگلے 6 ماہ کے اندر محبوب مل جائے گا، جس کی مدد سے وہ اپنا ’کنوارپن‘ ختم کرسکیں گے۔

اس درخت کو ’کنوارا درخت‘ کا نام دیا گیا ہے، جسے مختصرا ’وی ٹری‘ بھی کہا جاتا ہے۔

ہر سال کی طرح رواں برس بھی اس درخت کی پوجا کی گئی، تاہم اس بار کالج کے کچھ طلبہ و طالبات نے اس فرسودہ رسم کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

درخت کی پوجا کی مخالفت کرنے والے طلبہ و طالبات کا کہنا تھا کہ اس طرح کی پوجا نہ صرف فرسودہ روایات کی عکاسی کرتی ہے، بلکہ اس عمل سے خواتین کی عزت بھی مجروح ہوتی ہے۔

# یہ بھی پڑھیں: ویلنٹائنز ڈے پر لڑکے لڑکیوں کی زبردستی شادیاں

درخت کی پوجا کی مخالفت کرنے والے طلبہ و طالبات کے مطابق مخصوص عقیدے کے تحت اس کی پوجا کرنے والے زیادہ تر لڑکے ہوتے ہیں جو کسی لڑکی کے ملنے کی منت مانگتے ہیں، تاکہ وہ ان کے ساتھ تعلقات استوار کرسکیں۔

درخت پر غبارے، کنڈوم اور ربنز کے ساتھ خوبرو اداکارہ و اداکار کی تصویر بھی لٹکائی جاتی ہے—فوٹو: ریچو
درخت پر غبارے، کنڈوم اور ربنز کے ساتھ خوبرو اداکارہ و اداکار کی تصویر بھی لٹکائی جاتی ہے—فوٹو: ریچو

اعتراض کرنے والے طلبہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس درخت کی پوجا کے عمل میں کچھ لڑکیاں بھی شامل ہوتی ہیں اور وہ جنس مخالف کے ملنے کی منت مانگتی ہیں، تاہم ان کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے۔

دوسری جانب ٹائمز ناؤ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اس درخت کی پوجا 1953 سے کی جا رہی ہے اور پوجا کی یہ تقریب ہر سال ویلنٹائنز ڈے کے موقع پر کی جاتی ہے۔

اس درخت کی پوجا کرنے کے حق میں بولنے والے طلبہ کے مطابق اب ہر ویلنٹائنز ڈے پر درخت کی پوجا ایک روایت اور کالج کی ثقافت بن چکی ہے اور ہر کوئی خوشی خوشی اس میں شریک ہوتا ہے۔

طلبہ کا کہنا تھا کہ انہیں یہ روایت اپنے سینیئرز سے ورثے میں ملی ہے، جس کے تحت وہ درخت کی خصوصی پوجا کرکے گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ کے ملنے کی منت مانگتے ہیں۔

درخت پر جس لٹکائی گئی تصویر کو خیالی نام دمدمی بائی دیا جاتا ہے—فوٹو: اسپوٹک نک انٹرنیشنل
درخت پر جس لٹکائی گئی تصویر کو خیالی نام دمدمی بائی دیا جاتا ہے—فوٹو: اسپوٹک نک انٹرنیشنل

طلبہ نے بتایا کہ روایات کے مطابق کالج کے سینیئرز طلبہ ہر سال کسی اداکارہ یا ماڈل کو منتخب کرتے ہیں، جس کی بولڈ تصاویر کو درخت پر غباروں، کنڈوم اور ربنز کے ساتھ لٹکا کر اس کی پوجا کی جاتی ہے۔

طلبہ کے مطابق اس درخت کی پوجا کرنے والے ہر لڑکے اور لڑکی کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ انہیں اگلے 6 ماہ کے اندر محبوب مل جائے گا۔

گزشتہ کئی سال سے ہونے والی اس پوجا کی رواں برس سب سے زیادہ مخالفت خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’پنجرا توڑ‘ کی جانب سے کئی گئی۔

پنجرا توڑ کی سربراہی میں ہندو گرلز کالج کی طالبات کی جانب سے درخت کی پوجا کے خلاف شدید احتجاج اور نعرے بازی کی گئی۔

احتجاج کرنے والی لڑکیوں کے مطابق درخت کی پوجا کرنے کے دوران لگائے جانے والے نعرے یا گانے خواتین مخالف ہوتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں