امریکا:ہسپانوی زبان بولنے پر گرفتار افراد کا پولیس افسر پر مقدمہ

16 فروری 2019
امریکا میں ہسپانوی بولنا خلاف قانون نہیں ہے—فوٹو:اے ایف پی
امریکا میں ہسپانوی بولنا خلاف قانون نہیں ہے—فوٹو:اے ایف پی

امریکا میں ہسپانوی زبان بولنے پر پولیس کی جانب سے حراست میں لیے گئے دو شہریوں نے امریکی کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن (سی بی پی) کے خلاف مقدمہ کردیا۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق دو امریکی شہریوں آنا سڈا اور ماتھا ہرناندیز کو سی بی پی کے افسر نے گزشتہ برس مئی میں سبزی کی دکان میں آپس میں ہسپانوی زبان میں بات کرنے پر گرفتار کیا تھا۔

پولیس افسر پال او نیال نے دونوں شہریوں کو گرفتار کرکے 40 منٹ تک تفتیش کی تھی اور ان کی شناخت کے حوالے سے سوالات کیے تھے۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق دونوں شہریوں کا کہنا تھا کہ انہیں حراست میں رکھا گیا تھا۔

انسانی حقوق کی تنظیم امریکی سول لیبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) نے آنا سڈا اور ماتھا ہرناندیز کی جانب سے مقدمہ کردیا ہے۔

اے سی ایل یو کے اسٹاف اٹارنی کوڈی ووفسے نے دفتر سےجاری بیان میں کہا ہے کہ ‘ہسپانوی زبان بولنا قانون کے خلاف نہیں ہے لیکن سی بی پی کا یہ قدم اینٹی امیگریشن کے شدید حامی انتظامیہ کا قدم ہے’۔

قانونی نوٹس میں کہا گیا ہے کہ سی بی پی اہلکاروں کو بغیر کسی وجہ کے صرف ہسپانوی زبان بولنے پر شہریوں کو گرفتار کرنے سے روکا جائے اور اس اقدام سے پہنچنے والے نقصان کا ازالہ بھی کیا جائے۔

امریکی ریاست ٹیکساس میں پیدا ہونے والے آنا سڈا اور کیلیفورنیا میں پیدا ہونے والے ہرنانڈیز نے اپنے بیان فون پر ریکارڈ کروا دیا۔

وکیل اونیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکلان کے ہسپانوی زبان بولتے ہوئے جو فوٹیج دکھائی گئی ہے اس کی آواز نہایت کمزور ہے اس لیے واضح طور پر نہیں سنا جاسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب واقعہ ایک مرتبہ سامنے آیا ہے تو اب ہر کسی کے ساتھ پیشہ ورانہ انداز، عزت اور احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔

مردم شماری کے نتائج کے مطابق امریکا بھر میں تقریباً 4 کروڑ 10 لاکھ افراد اسپین کی زبان بولتے ہیں۔

امریکا دنیا بھر میں ہسپانوی بولنے والے افراد کا دوسرا بڑا ملک ہے جبکہ دو زبانوں کے بولنے والے افراد کو شمار کیا جائے تو ان کی تعداد اسپین سے بھی زیادہ بن جاتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں