’جنگ کے باعث ہر سال دنیا بھر میں ایک لاکھ بچوں کی ہلاکت‘

16 فروری 2019
جنگ میں بچوں کی ہلاکتوں اور معذور ہونے کی تعداد 3 گنا زائد ہے —فوٹو:شٹراسٹاک
جنگ میں بچوں کی ہلاکتوں اور معذور ہونے کی تعداد 3 گنا زائد ہے —فوٹو:شٹراسٹاک

میونخ: دنیا بھر میں ہر سال عسکری تنازعات کے سبب اور ان تنازعات کے نتیجے میں امداد کی رسائی نہ ہونے کے باعث ایک لاکھ بچے ہلاک ہوجاتے ہیں۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے مطابق جنگ سے سب زیادہ متاثر ہونے والے دنیا کے 10 ممالک میں 2013 سے 2017 کے دوران تقریباً 5 لاکھ 50 ہزار نومولود بچوں کی ہلاکت ہوئی۔

ان اموات کی وجہ جنگ اور اس کے اثرات، جن میں بھوک، ہسپتالوں اور انفرا اسٹرکچر کی تباہی، امداد نہ پہنچنا، صحت کی سہولیات تک رسائی اور صفائی کا نہ ہونا شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: یمن: سعودی اتحاد کا فضائی حملہ، 22 بچوں سمیت 30 افراد ہلاک

اس کے علاوہ بچوں کو عسکری گروہوں میں بھرتی کیے جانے، اغوا، جنسی استحصال، معذوری اور قتل ہوجانے کے خطرات بھی لاحق ہوتے ہیں۔

تنظیم کی چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیلے تھورننگ نے ایک بیان میں کہا کہ ’جنگ زدہ علاقوں میں رہنے والے ہر 5 بچوں میں سے ایک گزشتہ 2 دہائیوں کے مقابلے میں تنازعات کے باعث زیادہ متاثر ہوا‘۔

جرمنی میں ہونے والی میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’بچوں کی ہلاکتوں اور معذور ہونے کی تعداد 3 گنا زائد ہے اور جنگ میں امداد کا بطور ہتھیار استعمال خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے'۔

سیو دی چلڈرن کا کہنا تھا کہ اوسلو میں قائم پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں کی جانے والی تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ سال 2017 میں جنگ کے شکار علاقوں میں 42 کروڑ بچے موجود تھے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: نیٹو حملے میں دس بچے ہلاک

جو دنیا میں بچوں کی کل تعداد کا 18 فیصد ہیں جبکہ 2016 کے مقابلے میں اس تعداد میں 3 کروڑ کا اضافہ دیکھا گیا تھا۔

جنگ سے متاثر ہونے والے ان ممالک میں افغانستان، سینٹرل افریقن ریپبلک، ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو، عراق، مالی، نائیجیریا، صومالیہ، جنوبی سوڈان، شام اور یمن شامل ہیں۔

گزشتہ 5 سالوں میں جنگ کے بلاواسطہ اثرات کے نتیجے میں متاثرہ بچوں کی تعداد 8 لاکھ 70 ہزار تک پہنچ گئی جس میں 5 سال تک کی عمر کے بچے شامل تھے۔

تنظیم نے اپنی رپورٹ میں تجاویز کی فہرست بھی جاری کی، جس میں فوج میں بھرتی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر کرنے اور گنجان آبادی میں دھماکا خیز ہتھیاروں کا استعمال نہ کرنا شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یمن: باغیوں کے راکٹ حملے میں 7 بچے ہلاک

تنظیم کی سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ انتہائی صدمے کا باعث ہے کہ 21 صدی میں ہم اخلاقی اور اصولی قدروں میں پستی کی جانب گامزن ہیں، تنازعات میں بچوں اور شہریوں کو کبھی بھی نشانہ نہیں بنانا چاہیے‘۔


یہ خبر 16 فروری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں