کراچی، فرئیر، سندھی زبان اور برصغیر کی پہلی ڈاک ٹکٹ

کراچی، فرئیر، سندھی زبان اور برصغیر کی پہلی ڈاک ٹکٹ

ابوبکر شیخ

اس دھرتی پر نہ جانے کتنے وجود تھے اور ہیں۔ ہر ایک نے زندگی کی پگڈنڈی پکڑی اور اپنا سفر ختم کرکے عالم ارواح کی راہ لی۔ ہر وجود کے سرشت کی اپنی اپنی کائنات تھی۔ اس کائنات کے اپنے موسم اور اپنے آسمان تھے۔ بونے کے لیے ان کے پاس عملوں کی زمین تھی۔ بویا ہر کسی نے، کیونکہ بونا ہی پڑتا ہے اس لیے تو زمین پر دھکیل دیے گئے۔

پھر ان پوشیدہ تیز آنکھوں کا کیا کہ جو دیکھتی ہیں وہ ہی بیان کردیتی ہیں۔ وقت کے آسمان پر، اس تحریر کو ایک دنیا پڑھ سکتی ہے۔ انسان دنیا میں 2 ہی فصلیں بو سکتا ہے۔ اچھی یا بُری، تلخ یا شیریں، مثبت یا منفی اور وقت کی پوشیدہ آنکھوں کی تحریروں کو پڑھ کر ہم یہ کہتے ہیں کہ: یہ اچھا تھا یہ بُرا تھا یا یہ عمل مثبت تھا یا منفی تھا۔

تو چلیے نکل پڑتے ہیں کراچی کی ان گلیوں میں جو ابھی تک تاریخ کے صفحات میں بہتی ہیں۔ ڈھول اب بھی بجتے ہیں، کبھی کبھار توپ بھی چل جاتی ہے کہ ایک پل کا دوسرے پل سے رشتہ ہوتا ہے۔

17 فروری یا 24 مارچ 1843ء ہو، اگر کیلنڈر دیکھیں تو دونوں جمعہ کے دن تھے۔ چارلس نیپئر جس کی سرشت میں بارود کی بُو مہکتی تھی، اس کے اندر بسی وحشت کو اس دن سکون ملا جب ’میانی‘ اور ’دبی‘ کے جنگ کے میدان خون سے سُرخ ہوچکے۔ سندھ کے حاکموں کو اس نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔

چارلس جیمز نیپئر
چارلس جیمز نیپئر

احسان حلیم لکھتے ہیں کہ ’میر صاحبان کے لیے تو ماتم کرنے کا وقت بھی نہیں بچا تھا، وہ زندہ لاش تھے، ان کے سروں پر شکست کی سیاہ چادر پڑی ہوئی تھی اور سر میں خاک کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ان کے گھروں اور دربار میں مکمل خاموشی نے پنجے گاڑ دیے تھے۔ دربار کے فانوسوں کا تیل کب کا ختم ہوچکا تھا۔ میر صاحبان اور ان کی عورتوں (بیگمات، بیٹیوں اور بہنوں) کے لیے ایک لمبی اور نہ ختم ہونے والی تاریک رات کا آغاز ہوچکا تھا۔ مغل خاندان سے جو واقعہ 1857ء میں پیش آنے والا تھا، سندھ کے تالپوروں پر سے 1843ء میں ہوکر گزرا، وقت نے میروں کو اپنے دل سے نوچ کر بھلا دیا اور ان کو گمنامی کی کالی غاروں میں دھکیل دیا۔ میروں کے ساتھ جو ہوا وہ یقیناً اسے بھلا نہیں سکے ہوں گے کیونکہ ان کی نیندیں حرام اور راتیں لمبی ہوگئی ہوں گی۔‘

ایسے حالات میں ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا تھا اور نہ ہی اس سے زیادہ ان کو برباد کیا جاسکتا تھا۔ اقتدار چھین لیا گیا۔ وطن سے بے وطن ہوئے، حاکموں والی حیثیت ان کی سادگی نے ان سے چھین لی اور قیدیوں کی صورت میں کلکتہ کے قید خانہ میں اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہے تھے کہ بے بسی کی یہ آخری سرحد جو ٹھہری۔

میانی کی جنگ—Cheshire Military Museum
میانی کی جنگ—Cheshire Military Museum

دبی کی جنگ
دبی کی جنگ

’میانی‘ اور ’دبی‘ کی ان دونوں جنگوں کو ان علاقوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے 2 اہم کردار: گورنر جنرل لارڈ ایلنبرو اور چارلس نیپئر تھے۔ نیپئر جس کے خوابوں میں بھی توپیں اور بندوقیں بارود اگلتی تھیں۔ اس نے کئی جنگوں کے میدان ایسے سجائے تھے جیسے لوگ تفریح کے لیے میلے سجاتے ہیں۔ مگر سندھ میں لڑی جانے والی ان جنگوں نے ان کو زمانے میں رسوا کردیا تھا۔ جس کے نتیجہ میں 1844ء میں لارڈ ایلنبرو کو واپس بلالیا گیا جبکہ چارلس نیپئر یکم دسمبر، 1847ء بدھ کے دن کراچی بندر سے واپس لوٹا۔

لکھنے والے یہ لکھتے ہیں کہ نیپیر کا جانا ایک بُرے وقت کا چلے جانا تھا۔ چلیے جب تک اچھا وقت آئے ہم قدیم کراچی کی گلیوں اور حالات کو دیکھ لیتے ہیں کہ بُرا وقت کیسا تھا، جس میں دن رات گزار کر لوگ اچھے وقتوں کے خواب دیکھتے تھے۔

کراچی کو نیا روپ دینے والے ’بھوجو مل‘ نے 1763ء میں یہ جہاں چھوڑا۔ 1784ء میں کلہوڑوں کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور تالپوروں نے تخت پر ’میر فتح علی خان‘ کو بٹھایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی پر خان آف قلات کی حکمرانی تھی اور خان کی طرف سے گورنر مقرر کیے جاتے تھے، مگر وہ سارے محض نام کے ہی گورنر ہوتے تھے کیونکہ اصل حکومت یہاں کے بیوپاری، بھوجومل کے بیٹے دریانو مل اور اس کے بھائیوں کی تھی۔

خان آف قلات، 1870 کی دہائی میں
خان آف قلات، 1870 کی دہائی میں

تالپوروں نے مسلسل یہ کوشش جاری رکھی کہ کراچی ان کے دائرہ اختیار میں ہو۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے 3 بار حملے کیے۔ پہلے بار 1772ء میں، دوسری بار 1793ء میں اور تیسری بار 20 ہزار فوج کے ساتھ 1794ء میں حملہ کیا۔ کراچی کے قلعہ کا 3 ماہ تک گھراؤ کیا گیا۔ خان آف قلات نے اپنی طرف سے کوئی مدد نہیں کی اور اس طرح کراچی میروں کے حوالہ ہوا۔

سیٹھ ناؤنمل لکھتے ہیں کہ ’1794ء مطابق بھادوں کی 11 تاریخ، بدھ کے دن، سیٹھ دریانومل نے کراچی شہر کے دونوں دروازوں (میٹھا اور کھارادر) کی چابیاں، میر فتح علی خان کے فوجی کمانڈروں ’میاں فقیرو‘ اور ’میاں پالیا‘ کے حوالہ کیں۔ میروں نے سمندری حملے سے بچاؤ کے لیے منوڑے کی پہاڑیوں پر ایک قلعے کی تعمیر کروائی اور بندر کے تحفظ کے لیے پہرے دار مقرر کیے۔ اس قلعہ کی تعمیر 1799ء میں مکمل ہوئی۔ اسی برس 4 مئی کو میسور (سرنگاپٹم) میں انگریزوں کے ساتھ لڑتے ٹیپو سلطان شہید ہوا۔ 24 ستمبر 1799ء میں کراچی میں قائم، کمپنی کی بیوپاری کوٹھی پر کمپنی کا جھنڈا لگا کر کوٹھی کا افتتاح کیا گیا، مگر 1800ء میں حالات انگریزوں کے سخت خلاف ہوگئے۔ ’مسٹر ناتھن کرو‘ کے وقت میں کراچی اور ٹھٹہ والی بیوپاری کوٹھیوں کو بند کردیا گیا۔

1830ء میں افغانستان کی وجہ سے سندھ میں انگریز سرکار کی دلچسپی میں کچھ زیادہ اضافہ ہوا۔ ان دنوں میں راںا رنجیت سنگھ کے انگریزوں سے اچھے واسطے تھے کیونکہ وہ پنجاب میں ایک مستحکم حکومت کا حاکم تھا۔ بلکہ اس نے کشمیر، ڈیرہ اسماعیل خان اور ملتان کو بھی اپنی حکومت میں شامل کرلیا تھا۔

تالپور حکمران
تالپور حکمران

انگریز حکومت نے سندھ پر قبضہ کرنے کے لیے جو ڈرامائی شطرنج کی چال بچھائی اس میں وقت بہ وقت میروں کے مہرے پٹتے رہے۔ 1832ء میں انگریزوں کے تحریر کیے گئے عہدنامے پر تالپوروں نے دستخط کیے تو دریائے سندھ پر جہاز رانی کی اجازت گوری سرکار کو حاصل ہوگئی۔ قدرت کے فیصلے دیکھیے کہ اسی برس یعنی 1832ء میں میروں سے ایک ایسا عمل سرزد ہوا جس کے اثرات بڑے ہی خطرناک پڑنے والے تھے مگر اس وقت وہ ایک عام واقعہ سمجھا گیا۔

اس زمانے میں ہندو مسلم چپقلش کے پاٹوں میں، ناؤنمل کا باپ ’ہوتچند‘ پس گیا۔ جس کا ’ناؤنمل‘ پر انتہائی گہرا اثر مرتب ہوا۔ اسی وجہ سے جب انگریزوں کو یہاں کے ایک ایسے مقامی فرد کی ضرورت پڑی جس کی جان پہچان اور معاشرے میں ایک بااثر حیثیت ہو تو حالات نے ’ناؤنمل‘ کو پیش کردیا۔ میرا تو یہ خیال ہے کہ اگر ناؤنمل نہ ہوتا تو گوری سرکار سندھ پر قبضہ تو ضرور کرلیتی مگر اتنی آسانی سے نہیں۔ کیونکہ ناؤنمل نے ایک وفادار سہولت کار کے فرائض انتہائی ذمہ داری سے نبھائے۔

1839 میں ایک برطانوی سیاح کے ہاتھوں سے بنا کراچی کا ایک اسکیچ
1839 میں ایک برطانوی سیاح کے ہاتھوں سے بنا کراچی کا ایک اسکیچ

پھر 1836ء میں ایک اور معاہدہ ہوا جس میں دریائے سندھ کے کناروں پر اُگے ہوئے جنگلات سے آگبوٹوں کے لیے لکڑی فراہم کرنا میروں پر فرض ٹھہرا اور ساتھ میں کیپٹن کارلیس کو کراچی بندر اور ڈیلٹا کے دوسری بندرگاہوں کی سروے کی اجازت دے دی گئی۔ 1838ء میں ’شاہ شجاع‘ جلاوطنی کے زمانے میں شکارپور تک آ پہنچا اور میروں سے 5 لاکھ سالانہ خراج دینے کی یقین دہانی کرانے پر لوٹ گیا۔ دھیرے دھیرے انگریز سرکار آزاد سندھ پر اپنا شکنجہ کستی گئی۔ 1842ء میں ’لارڈ ایلنبرو‘ ہندوستان کا نیا گورنر جنرل بنا اور 3 ستمبر 1842ء کو چارلس نیپئر بمبئی سے کراچی کے لیے روانہ ہوا۔ اسی سفر میں اس کی موت یقینی تھی کیونکہ جس جہاز پر وہ سفر کر رہا تھا اس پر کالرا کی وبا پھیلی ہوئی تھی اور جہاز میں 54 لوگوں کے گلے کالرا نے گھونٹ ڈالے۔ مگر 60 برس کا نیپئر اس سے بچ نکلا اور کراچی پہنچ کر وہاں سے وہ سکھر کے لیے نکل پڑا۔ سکھر سے پہلے یقیناً حیدرآباد آتا ہے۔ اگر آپ ان دنوں کے تاریخی صفحات کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو ایک عجیب، حیرت انگیز کہانی آپ کے انتظار میں ہے اور ساتھ میں ان دنوں کے حالات کا تجزیہ کرنے کے لیے انتہائی آسان منظرنامہ بھی۔

جب چارلس نیپئر حیدرآباد پہنچا تو میر صاحبان نے ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا، بلکہ اسے اگر ’شاندار استقبال‘ کا لقب دیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔ نیپئر کے لیے سونے اور چاندی کے ورقوں سے لپٹی ہوئی پالکی بھیجی گئی اور دوسرے آفیسروں کے لیے سونے اور چاندی سے سجے اونٹ بھیجے گئے۔ اس طمطراق اور اپنے سخت رعب دار چہرے کے ساتھ اس نے میروں سے ملاقات کی اور ہوسکتا ہے کہ میروں کی سادگی پر اپنے اندر میں ہنسا بھی ہو۔ پھر دوسرے دن اکڑی گردن کے ساتھ وہ اسٹیمر میں بیٹھ کر سکھر کے لیے چلا گیا۔

سندھ 1890ء
سندھ 1890ء

اسی استقبال کا پھل میروں کو یہ ملا کہ نیپئر نے ’آؤٹرام‘ کو ہدایت کی کہ میروں سے سخت قسم کا معاہدہ کیا جائے، جس میں یہ درج تھا کہ انگریز فوج کی نقل و حمل اور خوراک پر جو خرچ آئے وہ تالپور ادا کریں اور پھر 3 ماہ بعد ہمیں 17 فروری 1843ء کو ’میانی‘ اور 24 مارچ کو ’دبی‘ جنگ کا ذکر ملتا ہے۔ اگر کبھی وقت ملا تو میں آپ کو ان جنگ کے میدانوں میں ضرور لے جاؤں گا جہاں ہزاروں لوگوں کا خون جاڑوں کے ٹھنڈے دنوں اور شاموں میں بہادیا گیا۔

نپیئر کا زمانہ 1843ء سے 1847ء تک ایک فوجی راج تھا، اور نپیئر کے جانے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ سندھ کا بمبئی سے الحاق کردیا جائے اور آنے والے وقت میں یہ بمبئی کے گورنر کے ماتحت رہے۔ اس فیصلے کے بعد سندھ کی آزاد حیثیت ختم ہوگئی۔ جس کے بعد گورنر کا عہدہ ختم کرکے ’چیف کمشنر‘ کا نام دے دیا گیا اور ’مسٹر پرنگل‘ پہلا چیف کمشنر سندھ مقرر ہوا۔ پرنگل تقریباً ڈیڑھ برس تک کمشنر رہا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مقامی لوگ تالپوروں سے کی گئی گوری سرکار کی زیادتی اور ظلم کے ملے ہوئے زخموں کو چاٹ رہے تھے۔ ناؤنمل جو انگریز دربار کا خاص آدمی تھا اس کے بھی چارلس نیپئر سے متعلق خیالات اچھے نہیں ہیں۔ وہ بھی اسے ایک فتنہ اور آگ بھڑکانے والا سمجھتا تھا۔ ایسے شب و روز میں مسٹر پرنگل آیا جس نے کوشش کی کہ لگے ہوئے زخموں پر کچھ مرہم لگایا جائے یا جو آگ جل رہی تھی اسے تھوڑا ٹھنڈا کیا جاسکے۔

منوڑہ، 1851ء
منوڑہ، 1851ء

مسٹر پرنگل کے بعد ’بارٹل فرئیر‘ کو سندھ بھیجا گیا۔ یہ وقت کے ہاتھوں ایک اچھا فیصلہ تھا، خاص کر سندھ کے لیے، کیونکہ گوروں نے یہاں کے لوگوں کو اتنا نچوڑا تھا کہ وقت آگیا تھا کہ دردوں کا درمان ہوسکے۔ وہ یقیناً ایک اچھا آدمی تھا۔ فرئیر ایون ندی کے کنارے بڑا ہوا تھا اور اسے جنگ کا شوق کبھی نہیں رہا۔ البتہ قدیم آثاروں کو دیکھنے کا اسے بہت شوق تھا۔ وہ ایک شفیق دل کا انسان تھا۔

اس کی بیوی ’کیتھرین آرتھر‘ لکھتی ہیں کہ ’ہم انگلینڈ میں تھے، میں اس کو لینے ریلوے اسٹیشن پر گئی تو میرے ساتھ ایک آدمی تھا جو فرئیر کو نہیں جانتا تھا۔ میں نے اسے کہا ریلوے کی اس بھیڑ میں وہ فرئیر کو ڈھونڈنے میں میری مدد کرے۔ تو اس نے کہا کہ جب میں اسے پہچانتا ہی نہیں تو مدد کیسے کرسکتا ہوں؟ میں نے کہا سن لو، وہ ایک اچھے قد والا انسان ہے، اور وہ ضرور کسی نہ کسی کی مدد کر رہا ہوگا، اُس کی پہچان کے لیے یہی بہت ہے، اور بالکل ایسا ہی ہوا۔ ہم نے جب اس کو دیکھا تو وہ ایک بوڑھی عورت کو گاڑی سے اترنے میں مدد کر رہا تھا۔‘

اس کے بعد تاریخ کے صفحات میں ہمیں یہ واقعہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے کہ ’جب ایک ننگر ٹھٹہ کے عرض دار کی نادانی کی وجہ سے، صبح کے وقت مسٹر فرئیر گھوڑے سے گر پڑے تھے اور ٹانگ زخمی ہوگئی تھی۔ مگر بغیر غصے کے اس نے اپنے عملے کو تاکید کی کہ جس کام سے یہ ٹھٹہ سے آیا ہے وہ کام جلدی کرواکر دو۔‘

بارٹل فرئیر
بارٹل فرئیر

جنوری 1851ء میں کمشنر کا چارج سنبھالنے کے لیے فرئیر سمندری راستے سے یہاں پہنچا۔ جہاز کو بندر سے دُور کھڑا کیا گیا اور ایک کشتی پر سوار ہوکر کراچی کے کنارے پر اُترا۔ یہ شاید صبح کا وقت تھا کیونکہ اسی دوپہر کو چارلس نیپئر اپنے خاندان کے ساتھ دریائے سندھ پر سفر کرتے کراچی پہنچا تھا۔ اس وقت اس کا عہدہ ’کمانڈر ان چیف‘ تھا۔ 30 مارچ 1849ء کو گجرات میں دوسری ’اینگلو سکھ‘ جنگ ختم ہوچکی تھی اور انگریز بہادر نے پنجاب پر بھی یونین جیک کا دو رنگہ جھنڈا لہرا دیا تھا۔ اس لیے اپنی پسند کا کام ختم کرکے وہ گھومتا گھامتا یہاں آ پہنچا اور 4 دن تک فرئیر کا مہمان رہا۔

فرئیر کے زمانے کا احوال ہمیں ناؤنمل کی کتاب (یادگیریوں) سے اچھا کہیں نہیں مل سکتا، کیونکہ وہ اس سسٹم کا ایک حصہ تھا جو نظام گوری سرکار کو چلاتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ناؤنمل اپنے آقاؤں کے شان میں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگیا ہو مگر اُس زمانے میں جو بنیادی کام ہوئے وہ ایک حقیقت ہیں۔ جس کو ہم چاہیں بھی تو جھٹلا نہیں سکتے۔

فرئیر اپنے ایک خط میں ان دنوں کے کراچی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’1851ء میں، ایک میل تک کا بھی راستہ نہیں تھا اور نہ کوئی پکا تعمیر کیا ہوا پُل موجود تھا۔ بندرگاہ کی بھی کوئی اچھی حالت نہیں ہے۔ یہاں جہازوں کا آنا ایک خطرناک عمل ہوسکتا ہے۔ شہر میں گندگی بھی بہت ہے۔‘

فرئیر کی اس بات کا ذکر خود ناؤنمل بھی کرتا ہے۔ وہ تحریر کرتا ہے کہ ’ایک دفعہ ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے تو فرئیر صاحب نے کہا کہ ’شہر بہت گندہ ہوگیا ہے۔ جہاں سے جاؤ بدبو آتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ شہر میں صفائی کے انتظامات کے لیے میونسپلٹی قائم کی جائے۔ گجرات میں احمد آباد کا شہر کسی وقت میں ایسا ہی گندہ تھا مگر بعد میں لوگوں کے مشورے سے میونسپلٹی قائم کی گئی اور گھی کے ایک ہنڈریٹ ویٹ (112 پاؤنڈ) کی برآمد پر ایک آنہ چھ پیسے کا محصول لگایا گیا اور اس طرح یہ پیسے شہر پر خرچ ہوئے تو شہر بہت صاف ستھرا ہوگیا۔ اگر کراچی میں کوئی ایسا انتظام کیا جائے اور ایک ہینڈریٹ گھی پر چھ پیسے محصول لگایا جائے تو شہر کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔‘

بارٹل فرئیر
بارٹل فرئیر

بارٹل فرئیر
بارٹل فرئیر

یوں اس طرح کراچی میں میونسپلٹی کی بنیاد پڑی۔ کراچی بندر کی بہتری کی بھی ایک چھوٹی سی کہانی ہے۔ اس وقت ہندوستان کا گورنر ’لارڈ ڈلہاؤزی‘ تھا۔ جس کے ساتھ فرئیر کے ذاتی تعلقات تھے۔ ان ذاتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے کراچی بندر کو بہتر بنانے کے لیے بمبئی چیمبر آف کامرس اور بمبئی اسٹیم نیویگیشن کمپنی کی رائے کے بعد بمبئی گورنمنٹ نے منظوری دی اور جنوری 1853ء میں ’میجر ٹرنر‘ نے سروے شروع کیا۔ اس کے بعد جیالاجی کے ماہر ’مسٹر ہارڈی ویلس‘ نے بھی تحقیق کی جس نے ویلس کی تحقیق کے حوالے سے ’بریک واٹر‘ بنوائی اور کچھ عرصہ بعد مھوڑہ لائٹ ہاؤس تعمیر کیا گیا۔

کراچی سے کوٹری تک ریلوے لائن کا خیال اور عمل بھی فرئیر صاحب کے اچھے کاموں کی لسٹ میں جاتا ہے۔ ہم ناؤنمل سے پھر کچھ جملے اُدھار لیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’فرئیر صاحب ہر برس اکتوبر سے مارچ تک ملک کے دورے پر نکلتے تھے اور دُور دراز علاقوں کے مسئلوں اور مشکلات کو سمجھتے اور پھر واپس آکر اُن کے حل کے لیے سرگردان ہوجاتے۔‘

اس حوالہ سے فرئیر اپریل 1853ء میں ’لارڈ فاکلنڈ‘ کو لکھتے ہیں کہ ’1851ء میں 126 میل سڑک 18525 روپوں میں بنائی گئی اور 1852ء میں 207 میل سڑل 28298 روپوں کی رقم سے بنوائی گئی۔ یہ راستے 40 فٹ چوڑے ہیں جو گزشتہ برسوں میں بنائے گئے ہیں۔ ایک گاؤں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہے ہیں۔ راستوں کے اوپر سے پُل بنوائے گئے ہیں جن کی تعداد 168 ہوگئی۔ یہ پل پکی اینٹوں اور سیمنٹ سے بنوائے گئے ہیں۔ مقامی لوگوں کی جانب سے بنائے گئے یہ پل انتہائی خوبصورتی ہیں۔‘

نمائشوں یا غیر روایتی میلوں کے انعقاد کا خیال بھی اس صاف ستھرے دماغ کی پیدائش تھا۔ کراچی میں یہ پہلی نمائش 1855ء میں منعقد کی گئی۔ میلے سے متعلق رپورٹ ’مسٹر مارٹینیو‘ کچھ اس طرح تحریر کے دائرے میں لاتے ہیں کہ ’سندھی، بلوچی اور افغان اپنے مخصوص لباسوں میں میلے میں شریک ہوئے۔ کسی جگہ پر فروٹ بک رہا تھا تو کسی جگہ پر گھوڑے تھے اور کسی جگہ پر اونٹ۔ کچھ دکانیں پنجابیوں کی تھیں جہاں اچھا کپڑا رکھا ہوا تھا۔ بمبئی سے جو ایرانی میلے میں شامل ہوئے تھے ان کے قالینوں اور شالوں نے عجیب رنگوں کی بہار پیدا کردی تھی۔ سندھ بھی آگے تھا، اجرکیں، لنگیاں، کاشی اور جنڈی کا سامان ان کی دکانوں کی شان تھا۔ چین سے بھی بیوپاری آئے تھے، جن کے پاس ریشمی کپڑا اور سیمور کے قیمتی کوٹ بھی تھے۔ اس میلے کا انتظام ساحلِ سمندر پر کیا گیا تھا جہاں سے جہازوں کے بادبان نظر آرہے تھے۔ حد نظر تک نیلا آسمان نظر آتا تھا اور حب جبل کی پہاڑیوں کی قطاریں نظر آتی تھیں۔‘

فرئیر کے کھاتے میں اریگیشن نظام کی بہتری اور بہت سارے مثبت عملی کاموں کے ساتھ، 2 بڑی کامیابیاں بھی اس انسان کی مثبت سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔ جن میں سے ایک ہے ’سندھی زبان‘ کی ترقی اور دوسری ہے پوسٹ میں ’ٹکلی‘ کا استعمال جو ایشیا میں پہلی بار اس انسان نے جاری کی۔ یہ دونوں بڑی دلچسپ حقیقتیں ہیں کہ یہ سب کیسے ہوا؟ یہ یقیناً کوئی جادو نہیں تھا کہ پھونک ماری اور ہوگیا۔ ہم گوروں کی مخالفت کرسکتے ہیں مگر مثبت کاموں کے لیے اُن کو اچھا بھی کہنا چاہیے۔

فرئیر 6 ماہ کراچی میں اور سردیوں والے 6 ماہ ملک کے اور گاؤں اور شہروں کا وزٹ کرتا۔ مجھے لگتا ہے وہ ایک عام گورا آفیسر نہیں تھا۔اُس کی تجزیاتی نظر انتہائی گہری محسوس ہوتی ہے۔ ماضی میں جو زمانہ رہا ان میں جو حکمران رہے، ان کی زبان فارسی تھی تو سرکاری خط و کتابت فارسی میں رائج تھی۔ بلکہ تالپور جن کی زبان سرائیکی تھی ان کی اکثر تحریریں بھی فارسی زبان میں تھیں، جبکہ مقامی آبادی کی زبان سندھی تھی۔ لہٰذا فرئیر نے ضرور سوچا ہوگا کہ جب عام آدمی کی زبان سندھی ہے تو ’فارسی گھوڑے چاڑھسی‘ والے زمانے (ارغونوں، مغلوں، ترخانوں، میروں کے زمانے میں یہ کہاوت مشہور تھی کہ جو فارسی سیکھے گا اس کو ہی نوکری اور عزت ملے گی۔

فرئیر کی آمد سے پہلے کا کراچی
فرئیر کی آمد سے پہلے کا کراچی

حال اب بھی وہی ہے۔ بس فارسی کی جگہ انگریزی لگادیں کو اب الوداع کہنا چاہیے اور اس زمانے کو الوداع کہنے کے لیے اس نے فارسی کی جگہ سندھی کو رائج کرنے کے لیے احکامات جاری کیے اور سندھی کی الفابیٹ کے لیے کمیٹی بٹھائی گئی۔ یہ کمیٹی موجودہ سندھی الفابیٹ کے لیے بٹھائی گئی جس میں اس وقت 52 حروف ہیں۔ اس سے پہلے جو سندھی عربک الفابیٹ تھی وہ ابوالحسن سندھی کی بنائی ہوئی تھی جس میں اسسٹنٹ کمشنر اور ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کا چیف آفیسر مرکزی میمبر تھے باقی ممبران ہندو مسلم کمیونٹی کے نمائندے تھے اور ان کی تعداد کو برابر رکھا گیا۔

رچرڈ برٹن مسلم کمیونٹی اور کیپٹن اسٹیک نے ہندو کمیونٹی کی نمائندگی کی۔ رچرڈ برٹن کی رائے تھی کہ سندھی کے لیے عربی رسم الخط موزوں رہے گا مگر کیپٹن اسٹیک نے اس کی مخالف کی اور سندھی کے لیے ’دیوناگری‘ خط کی سفارش کی۔ متضاد رائے کی وجہ سے یہ سارا معاملہ کورٹ آف ڈائریکٹرس بمبئی بھیجا گیا۔ 11 ماہ کے بعد ڈائریکٹرس نے منظوری دی کہ آزمائشی طور پر عربی سندھی صورتخطی کو استعمال کیا جائے۔ سندھی الفابیٹ کے لیے پھر ایک کمیٹی بٹھائی گئی جس کا سربراہ ’سر بیروایلس‘ کو بنایا گیا۔

عربی خط کو ماننے کے بعد اس کی ترتیب کا سوال اُٹھایا گیا۔ بڑے بحث مباحثے، غور و خوص کے بعد، الف۔ب کے 29 حروف ’پراکرت‘ کے مستعمل حرفوں سے ملاکر، 52 حروفوں کی الفابیٹ مکمل کرلی گئی۔ اس مقرری کہ بعد فرئیر نے 29 اگست 1857ء میں سندھی کی نئی صورتخطی اور سرکاری زبان کی حیثیت کا سرکولر جاری کیا اور کہا کہ ’آئندہ سرکاری نوکری میں ترقی اس صورت میں دی جائے گی جب ملازم کو سندھی زبان لکھنی اور پڑھنی آئے گی۔ ساتھ میں بمبئی سرکار کو یہ کہا گیا گہ سندھی زبان میں ٹیکسٹ کی کتابیں تیار کی جائیں۔ بعد میں ایجوکیشن کا نظام ایک آفیسر مسٹر گولڈ سمڈ کے حوالے کردیا گیا جس طرح اردو کی ترقی کے لیے فورٹ ویلیم کالج کلکتہ میں کیا گیا، سندھی زبان کی ترقی کے لیے یہاں ’فرئیر‘ صاحب نے کیا۔ سندھی زبان کے سفر کے ساتھ فرئیر صاحب کا نام بھی کسی خوشبو کی طرح ساتھ ساتھ چلے گا۔

فرئیر نے 29 اگست 1857ء میں سندھی کی نئی صورتخطی اور سرکاری زبان کی حیثیت کا سرکولر جاری کیا۔
فرئیر نے 29 اگست 1857ء میں سندھی کی نئی صورتخطی اور سرکاری زبان کی حیثیت کا سرکولر جاری کیا۔

سندھی کی پہلی کتاب
سندھی کی پہلی کتاب

اب ذکر پوسٹل نظام کا جو اس وقت رائج تھا۔ سندھ کے بڑے شہروں جیسے کراچی، حیدرآباد، سکھر، خیرپور اور شکارپور میں پوسٹل رسیور رکھے گئے تھے، جن میں خطوط ڈالے جاتے تھے اور وصول کرنے والے کو ادائیگی کرنی پڑتی تھی۔ پوسٹ کے اس نظام سے فقط پیسے والے لوگ استفادہ کرسکتے تھے۔ فرئیر نے سندھ کو اپنا سمجھا اور وہ چاہتا تھا کہ سفر ہمیشہ بہتری کی طرف کرنا چاہیے۔ اس نے ہر شعبے میں تبدیلیاں لانے کی بھرپور کوشش کی اور کامیاب بھی رہا۔

سندھ گزیٹیئر اس حوالہ سے لکھتا ہے کہ ’مسٹر فرئیر کے پوسٹ کے نظام کو ہم کبھی بھول نہیں سکتے، کیونکہ ہندوستان میں پوسٹ کی ٹکٹوں کا وہ پہلا موجد تھا۔ اس نے سندھ میں ’رونالڈ ہلز‘ کے تجویز کیے ہوئے سسٹم کو قائم کیا جو بعد میں جنوبی ایشیا کے لیے ایک ماڈل بنا۔ عام خیال تھا کہ انتظامی سائنس کے حوالے سے ٹکٹوں کی قیمتوں کی پہلے ادائیگی کا نظام یورپ میں تو چل سکتا ہے مگر یہاں نہیں۔‘

بارٹل فرئیر کی آخری آرام گاہ
بارٹل فرئیر کی آخری آرام گاہ

بارٹل فرئیر کا مجسمہ
بارٹل فرئیر کا مجسمہ

فرئیر نے 1854ء میں پوسٹ کی ٹکٹوں کو سسٹم میں شامل کیا۔ یہ کام اس نے کراچی کے پوسٹ ماسٹر ’مسٹر ایڈورڈ لیس‘ کی مدد سے ’سندھ ڈسٹرکٹ ڈاک‘ کی ٹکٹوں کا بنیادی خاکہ تیار کروایا اور اس کی قیمت آدھا آنہ رکھی گئی۔ اس حوالہ سے فرئیر، مرکز سے خط و کتابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’کل میں نے جو ڈاک ٹکٹ آپ کو بھیجی ہے وہ پہلی پوسٹ کی ٹکلی ہے جو ہندوستان کی تاریخ میں پہلی ڈاک ٹکٹ ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ سندھ میں 1850ء تک پوسٹ کا طریقہ بے حد ناقص تھا۔ یہ علاقہ مکانی خرچوں کو برداشت نہیں کرسکتا۔ ہم نے جب بھی مرکز کو زائد پوسٹ آفیسیں کھولنے کی درخواست دی تو ہماری غربت ہمیں یاد دلادی گئی۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ پوسٹ کا طریقہ عیاشی نہیں ہے بلکہ ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس لیے ہم نے خیال کیا کہ ایسا طریقہ ڈھونڈا جائے جس سے پوسٹ کا مسئلہ حل ہوسکے۔ پوسٹ ماسٹر مسٹر ایڈورڈ کافی نے اس حوالہ سے بڑی مدد کی جس کی وجہ سے ہم نے اس اہم کام کو اپنے اختتام پر پہنچایا۔

ڈاک ٹکٹ
ڈاک ٹکٹ

ہم نے ٹکٹیں ’ڈی لا ریو کمپنی‘ سے تیار کروائیں اور یہ ٹکٹیں انگلینڈ کی طرح ہر ایک سرکاری آفیسر اور پولیس آفیسر کو دے دی گئیں اور ان کو حکم دیا گیا کہ یہ خط و کتابت میں ان ٹکٹوں کا استعمال کریں۔ یہ برٹش گورنمنٹ اور اس عظیم کمپنی کی فتح ہے۔ اب ہر آفس پوسٹ آفس بن گئی ہے اور سارے خطوط پر یہ ہی ٹکٹیں استعمال ہو رہی ہیں۔ ہم پوسٹ کے اس سسٹم کو بغیر کسی اضافی خرچ کے کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں، ہمارا یہ طریقہ سارے ہندوستان کے لیے پوسٹ کا بہترین طریقہ ثابت ہوگا۔‘ اور یقیناً یہ ایک کامیاب طریقہ تھا جو بعد میں ایشیا کے ملکوں میں کامیابی سے رائج ہوا۔

میں نہیں جانتا کہ جب فرئیر کو کلکتہ میں ہند سرکار کاؤنسل کا میمبر بنایا گیا اور اکتوبر 1859ء میں وہ کراچی کے بندر سے جانے لگا تو کتنوں کو دکھ ہوا ہوگا۔ ضرور ہوا ہوگا کہ وہ ایک بہتر انسان تھا۔ مگر سب سے زیادہ دکھی ناؤنمل تھا۔ اسے دکھی ہونا بھی چاہیے تھا کہ فرئیر اسے بہت چاہتا اور اس کی دلی عزت کرتا تھا۔

ناؤنمل
ناؤنمل

الوداعی پروگرام میں بھی وہ فرئیر کے ساتھ ساتھ رہا۔ فرئیر 1862ء میں بمبئی کا گورنر بنا۔ اس سارے وقت کے دوران اس نے اپنے پرانے دوستوں کو یاد رکھا۔ سب کی خیر خبر لیتا اور جس سے جتنے تعلقات تھے وہ ان کو اپنے ظرف کا پانی دے کر سینچتا رہا۔ یہ چھوٹی بات نہیں تھی کیونکہ حاکم اور محکوم کا دنیا میں کوئی رشتہ نہیں ہے اور ایک حاکم کو ضرورت بھی نہیں ہے کہ جس کے ساتھ کچھ دن گزارے ہیں ان کو یاد رکھے۔ مگر یہ ظرف والا حاکم تھا اس لیے یہ سارا کچھ کرسکا۔

1867ء میں اسے اعزازی ڈگریاں دی گئیں۔ 1875ء میں اسے ’بیرونیٹ‘ کا اعزاز ملا۔ پھر وہ افریقی میں 1877ء میں جنوبی افریقہ کا کمشنر بنا۔ 1880ء میں جنگ کا حکم دینے پر اس پر مس کنڈیکٹ کی کارروائی کی گئی۔ اس کے 4 برس بعد 29 مئی 1884ء میں اس جہاں کو ومبلڈن میں الوداع کہا۔ 1888ء میں تھیمس ندی کی دیوار کے قریب رکھے ہوئے مجسمہ کا ویلز کے شہزادے نے افتتاح کیا۔

بارٹل فرئیر کی وفات کے بعد کراچی کے ہال کا نام ان کے نام پر فرئیر ہال رکھ دیا گیا۔ یہ 1865 میں لی گئی تصویر ہے
بارٹل فرئیر کی وفات کے بعد کراچی کے ہال کا نام ان کے نام پر فرئیر ہال رکھ دیا گیا۔ یہ 1865 میں لی گئی تصویر ہے

اگر ہم تاریخ کا تجزیاتی نظر سے مطالعہ کریں تو مجھے لگتا ہے کہ وہاں سیکھنے کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔ شکست و ریخت، اچھائی اور بُرائی، زندگی کے تلخ و شیریں ذائقوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ مگر لگتا کچھ ایسا ہے کہ ہم نے ان حقیقتوں سے بالکل نہیں سیکھا۔ اگر سیکھا بھی ہے تو بہت ہی کم۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں کبھی یہ نہ لکھتا کہ ’فارسی‘ کی جگہ پر ’انگریزی‘ لکھ کر کہاوت مکمل کرلیں۔

حوالہ جات:

۔ ’یادگیریوں‘۔ سیٹھ ناؤنمل ہوتچند ۔ سندھی ادبی بورڈ ۔ ’کلاچی سے کراچی تک‘۔ احسان سلیم ۔ سندھیکا اکیڈمی ۔ ’تاریخ سندھ‘۔ اعجازالحق قدوسی ۔ سندھیکا اکیڈمی ۔ لنکُ: ’وکیپیڈیا‘ اور ’انسائیکلوپیڈیا برٹینکا‘


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔