بھارت: ’ گائے ذبح کرنے پر قتل کے واقعات میں پولیس ملوث ہوتی ہے’

19 فروری 2019
پولیس  نے متاثرہ خاندانوں کو دھمکایا اور  ان کے خلاف مقدمات قائم کیے—  فائل فوٹو
پولیس نے متاثرہ خاندانوں کو دھمکایا اور ان کے خلاف مقدمات قائم کیے— فائل فوٹو

انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کا کہنا ہے کہ بھارت میں گائے ذبح کرنے پر مشتعل ہجوم کی جانب سے قتل کے اکثر واقعات میں بھارتی پولیس ملوث ہوتی ہے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’اے ایف پی ‘ کے مطابق ہیومن رائٹس واچ کی ساؤتھ ایشیا ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا کہ ’گائے کی حفاظت کے مطالبات شاید ہندو افراد کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے شروع کیے گئے ہوں گے لیکن یہ اب مشتعل ہجوم کے لیے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو قتل کرنے کی اجازت میں تبدیل ہوگئے ہیں‘۔

میناکشی گنگولی کا کہنا تھا کہ ’ بھارتی حکام کو ان حملوں کی صفائی دینا، متاثرین کو مورد الزام ٹھہرانا یا ذمہ داران کی حفاظت کرنا چھوڑ دینی چاہیے‘۔

مزید پڑھیں: بھارت: گائے ذبح کرنے کے خلاف مظاہرے، پولیس اہلکار سمیت 2 افراد ہلاک

رپورٹ کے مطابق مئی 2015 سے لے کر گزشتہ برس دسمبر تک ایسے حملوں میں کم از کم 44 افراد کو قتل کیا جاچکا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے الزام عائد کیا کہ ’ان میں سے 36 افراد مسلمان تھے اور تقریباً تمام مقدمات میں پولیس نے یا تو ابتدائی تحقیقات روک دیں، طریقہ کار کو نظر انداز کیا اور قتل کی واردات یا اس کی پردہ داری میں خود پولیس ملوث تھی‘۔

یہاں تک کہ پولیس کی جانب سے گائے ذبح کیے جانے پر پابندی کے قوانین کے تحت متاثرہ خاندان کے افراد کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے تاکہ انہیں ڈرا کر انصاف حاصل کرنے سے روکا جاسکے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے بعض اراکین نے مسلمانوں اور دلت ذات سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں کی حمایت بھی کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ’گائے کے گوشت‘ پر قتل:بھارت میں 11 مجرمان کو عمر قید

اسی نوعیت کے ایک کیس میں 2016 میں ایک مشتعل ہجوم نے مویشیوں کے مسلمان تاجر اور ایک 12 سالہ لڑکے کو اس وقت قتل کیا تھا جب وہ مشرقی ریاست جھارکھنڈ میں جانوروں کے میلے میں شرکت کے لیے جارہے تھے۔

ان دونوں افراد کی بدترین تشدد زدہ لاشیں درخت پر لٹکی ہوئی ملی تھیں اور ان کے ہاتھ پیچھے کرکے باندھے ہوئے تھے۔

رپورٹ میں لڑکے کے والد کی بات کا حوالہ دیا گیا ہے کہ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’ اگر میں باہر جاتا تو وہ مجھے بھی قتل کردیتے، میرا بیٹا مدد کے لیے چلارہا تھا لیکن میں بہت خوفزدہ تھا اور میں چھپ گیا‘۔

ایک اور کیس میں جون 2018 میں ایک ہجوم کی جانب سے مسلمان شخص کے قتل کو پولیس ریکارڈ میں ’ موٹر بائیک ایکسیڈنٹ ‘ بتایا گیا تھا۔

رپورٹ میں متاثرین کے رشتے داروں کے بیانات شامل ہیں جس میں پولیس کی دھمکیوں اور مداخلت سے متعلق بھی بتایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت: گائے ذبح کرنے کے الزام میں تشدد سے ایک اور مسلمان جاں بحق

ایک متاثرہ شخص کے بھائی کے مطابق ’ پولیس نے ہمیں مویشی تحفظ کے قوانین کے تحت گرفتاری سے بھی ڈرایا کہ وہ ہمارے پورے خاندان کو جیل میں ڈال دیں گے‘۔

گائے ذبح کرنے اور اس کا گوشت استعمال کرنے پر اکثر بھارتی ریاستوں میں پابندی عائد ہے اور بعض میں عمر قید کی سزا بھی سنائی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ بھارت میں گائے کے ذبح اور اسمگلنگ کے حوالے سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کی لہر دیکھی جاچکی ہے۔

2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گائے کے مبینہ ذبح اور اس کا گوشت کھانے کے الزام میں قتل میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جو رواں برس دوسری مدت کے لیے انتخابات لڑیں گے، انہوں نے مشتعل ہجوم کی جانب سے گائے ذبح کرنے کے الزام میں قتل کی مذمت کی ہے اور مذہب کو تشدد کے لیے استعمال کرنے والے گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن پر زور دیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں