چور کا ساتھی ہونے کا شبہ، پولیس کا 8 سالہ بچے پر بہیمانہ تشدد

اپ ڈیٹ 20 فروری 2019
ابتدائی تحقیقات میں پولیس کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال کا انکشاف ہوا — فوٹو: آن لائن
ابتدائی تحقیقات میں پولیس کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال کا انکشاف ہوا — فوٹو: آن لائن

لاہور: رائیونڈ پولیس کی غیرقانونی حراست میں مبینہ طور پر 8 سالہ یتیم بچے پر تھرڈ ڈگری تشدد نے پولیس اصلاحات کے بلند و بانگ دعوؤں کی قلعی کھول دی۔

رائیونڈ پولیس کی ٹیم نے دھوکہ دہی میں معاونت کے شبے میں پیر کی شام لاہور کے علاقے گرین ٹاؤن سے احمد کو گرفتار کیا اور اس پر بہیمانہ تشدد کیا، بعد ازاں بچے کو پولیس حراست سے جانے کی اجازت دے دی لیکن اس وقت بچہ درد کی شدت کے سبب صحیح طریقے سے چلنے اور بیٹھنے سے قاصر تھا۔

مزید پڑھیں: وفاق نے سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے آئی جی پولیس تبدیل کردیے

موبائل فون کی دکان چلانے والے نے چور کا ساتھی ہونے کے شبے میں بچے پر تشدد کرنے کے بعد اسے پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور انسپکٹر جنرل پنجاب امجد جاوید سلیمی نے واقعے کی مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا۔

پولیس اسٹیشن کے تفتیشی کمروں میں عموماً سنگین جرائم میں مطلوب ملزمان پر تھرڈ ڈگری تشدد کیا جاتا ہے تاکہ ان سے اہم معلومات نکلوانے کے ساتھ ساتھ اقبال جرم کروایا جا سکے، سینئر افسران کی جانب سے کی گئی ابتدائی تحقیقات میں پیر کو رونما ہونے والے اس بدترین واقعے میں پولیس کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال کا انکشاف ہوا ہے۔

بعد ازاں میڈیا کے سامنے بچہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے تمام واقعہ سنایا،بچے نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے اسے ہیٹر پر بیٹھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہ موبائل فون چوری کرنے کا اقبال جرم کرے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب پولیس کی سابق ورلڈ اسنوکر جونیئر چیمپیئن سے شدید بدتمیزی

متاثرہ بچے کا کہنا تھا کہ بعدازاں انہوں نے اس کے ہاتھ رسی سے باندھ کر اسے الٹا لٹکا دیا۔

انہوں نے بتایا کہ ایک پولیس اہلکار نے ان کی ٹانگیں باندھ دیں اور اسے پیروں پر مارنا شروع کیا، پھر وہ رات گئے کئی گھنٹوں کے تشدد کے سبب ادھ موئے ہو گئے۔

اس واقعے پر گہرے صدمے سے دوچار احمد کی والدہ نے صحافیوں کو اپنے بیٹے کے جسم خصوصاً کمر اور تلووں پر جلائے جانے اور تشدد کے نشانات دکھائے جہاں بہیمانہ تشدد کے باعث احمد صحیح طریقے سے سو بھی نہیں پا رہا۔

آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کمسن بچے پر اس بہیمانہ تشدد میں ملوث اہلکاروں سے ہرگز رعایت نہیں برتی جائے گی، انہیں نوکری سے برخاست کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا تاکہ انہیں مثال بنایا جا سکے۔

صدر ڈویژن کے ایس پی سید علی نے بتایا کہ انہوں نے واقعے کی تحقیقات کی تھیں اور بچے سے غیر انسانی سلوک پر اے ایس آئی محمد سعید کو گرفتار کر لیا گیا تھا، اے ایس آئی اور بچے کو پولیس کے حوالے کرنے والے 2 دکانداروں کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا گیا۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف کا نام سفری پابندی سے متعلق فہرست میں شامل

انہوں نے بتایا کہ موبائل فون کی دکان کے مالک نے پولیس کو بتایا کہ ایک شخص بچے کے ہمراہ دکان پر آیا اور یہ وعدہ کرکے 2 موبائل فون لے گیا کہ وہ آدھے گھنٹے میں دکان پر واپس آئے گا۔

پولیس افسر نے بتایا کہ مذکورہ شخص نے دکاندار کو یقین دہانی کرائی کہ جب تک وہ واپس نہیں آتا، اس کا بیٹا (احمد) گارنٹی کے طور پر اس کی دکان پر رہے گا لیکن کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود وہ شخص واپس نہ آیا اور دکان کے مالک نے بچے کو اس ٹھگ کا ساتھی سمجھ کر تشدد کے بعد پولیس کے حوالے کردیا۔

ایس پی نے مزید بتایا کہ واقعے پر مزید پیشرفت کے لیے تحقیقاتی رپورٹ لاہور کیپیٹل سٹی پولیس افسر کو بھیج دی گئی ہے۔


یہ خبر 20 فروری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں