خاتون اور مرد کے تاریخی مجسمے پر’می ٹو‘ لکھنے پر ہنگامہ

اپ ڈیٹ 20 فروری 2019
مجسمے پر بڑے الفاظ میں می ٹو لکھا گیا—فوٹو: فاکس نیوز
مجسمے پر بڑے الفاظ میں می ٹو لکھا گیا—فوٹو: فاکس نیوز

اکتوبر 2017 سے دنیا بھر میں شروع ہونے والی ’می ٹو‘ مہم نے دنیا بھر میں تہلکہ مچایا تھا اور دنیا کے کئی ممالک کی خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر آواز بلند کی تھی۔

اگرچہ یہ مہم اب بھی دنیا بھر میں جاری ہے، تاہم اب یہ مہم اتنی متحرک نہیں دکھائی دیتی جتنی ڈیڑھ سال قبل تھی۔

لیکن امریکی شہر نیویارک میں موجود معروف ’ٹائمز اسکوائر’ نصب کیے گئے مرد و خواتین کے تاریخی مجسمے پر نامعلوم افراد کی جانب سرخ الفاظ میں ’می ٹو‘ لکھے جانے کے بعد ایک بار پھر اس مہم کی گونج سنائی دینے لگی ہے۔

ٹائمز اسکوائر پر نصب اس تاریخی مجسمے میں ایک مرد سفید لباس میں ملبوس خاتون کو رومانوی انداز میں بوسہ دے رہا ہے۔

یہ مجسمہ جنگ عظیم دوئم کے اختتام کے بعد نیویارک میں کھینچی گئی ایک یادگار تصویر سے متاثر ہوکر بنایا گیا تھا۔

اس تصویر میں امریکی بحریہ کا ایک سپاہی امریکی نرس کو خوشی اور پیار کے انداز میں گلے لگا کر بوسہ دے رہا ہے۔

اس تصویر کو جنگ عظیم دوئم کے اختتام پر جرمن نژاد امریکی فوٹوگرافر الفریڈ ایسینستادت نے کھینچا تھا۔

یہ مجسمہ ایک تصویر سے متاثر ہوکر بنایا گیا تھا—فوٹو: یو ایس نیوز
یہ مجسمہ ایک تصویر سے متاثر ہوکر بنایا گیا تھا—فوٹو: یو ایس نیوز

یہ تصویر جنگ عظیم دوئم میں امریکا کی جانب سے جاپان پر کیے گئے ایٹم بم حملے اور جاپان کی جانب سے شکست تسلیم کیے جانے کے بعد 14 اگست 1945 کو کھینچی گئی تھی۔

جاپان کی جانب سے شکست تسلیم کیے جانے پر جہاں امریکا بھر میں جشن منایا گیا تھا، وہیں نیویارک کے شہریوں نے بھی کھل کر جشن منایا تھا اور اسی جشن منانے کے دوران ہی بحریہ کے سپاہی نے ایک نرس کو خوشی میں آکر بوسہ دیا تھا۔

خوشی کے موقع پر سپاہی کی جانب سے نرس کو دیے گئے بوسے کو فوٹوگرافر نے اپنے کیمرے میں محفوظ کرلیا جو بعد ازاں تاریخ کی سب سے رومانوی تصویر بنی۔

اس تصویر معروف فیشن میگزین ’لائف‘ کے سرورق پر بھی شائع کیا گیا اور اس نے دنیا بھر میں مثبت پیغام دیا۔

کئی سال تک اس تصویر میں نظر آنے والے مرد اور خاتون سے دنیا بے خبر رہی، تاہم بعد ازاں ان کی شناخت بھی سامنے آئی۔

اس تصویر میں نظر آنے والی نرس گریتا فریڈمین تھیں جب کہ سپاہی کی شناخت جارج مینڈونسا کے طور پر ہوئی تھی۔

جس وقت سپاہی نے گریتا فریڈمین کو بوسہ دیا تھا، اس وقت وہ ایک ڈینٹل ڈسپینسری میں خدمات سر انجام دے رہی تھیں اور ان کی عمر 21 سال تھی۔

یہ تصویر 14 اگست 1945 کو کھینچی گئی تھی—فوٹو: یو ایس ٹوڈے
یہ تصویر 14 اگست 1945 کو کھینچی گئی تھی—فوٹو: یو ایس ٹوڈے

ڈیڑھ دہائی قبل 2005 میں گریتا فریڈمین نے ’ویٹرن ہسٹری پروجیکٹ‘ کو اس واقعے سے متعلق تفصیل بتائی تھی۔

گریتا فریڈمین نے بتایا تھا کہ وہ اس واقعے سے قبل جارج مینڈونسا کو نہیں جانتی تھیں اور یہ سب کچھ اچانک ہوا تھا۔

گریتا فریڈمین کا کہنا تھا کہ ان دونوں میں کوئی تعلقات نہیں تھے اور وہ نہیں جانتی تھیں کہ جارج مینڈونسا نے ایسا کیوں کیا۔

ساتھ ہی گریتا فریڈمین نے اس عمل کو پیار کا نام نہیں بلکہ خوشی منانے کا انداز قرار دیا تھا۔

گریتا فریڈمین کا انتقال 2016 میں ہوگیا تھا اور ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے نے انکشاف کیا تھا کہ ان کی والدہ بحری فوج کے سپاہی کی جانب سے لیے گئے بوسے کو منفی نہیں سمجھتی تھیں۔

تاہم اب نرس اور بحریہ کے سپاہی کی جانب سے 74 سال قبل دیے گئے بوسے کی تصویر سے متاثر ہوکر بنائے گئے اس مجسمے پر’می ٹو‘ لکھ دیا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مجسمے پر ’می ٹو‘ لکھے جانے کا واقعہ ایک ایسے موقع پر پیش آیا ہے جب کہ اس مجسمے میں نرس کو بوسہ دینے والے بحریہ کے سپاہی جارج مینڈونسا کا ایک دن قبل ہی انتقال ہوا ہے۔

برطانوی نشریائی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق جارج مینڈونسا 19 فروری کو 95 برس کی عمر میں چل بسے تھے۔

خاتون کی ٹانگ پر می ٹو لکھا گیا1فوٹو: سی این این
خاتون کی ٹانگ پر می ٹو لکھا گیا1فوٹو: سی این این

امریکی نشریاتی ادارے ’این بی سی‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ’غیر مشروط مجسمے‘ کے نام سے معروف مجسمے پر نامعلوم افراد نے سرخ الفاظ میں ’می تو‘ لکھ کر سب کو حیران کردیا۔

نامعلوم افراد نے گریتا فریڈمین کی ٹانگ پر ’می ٹو‘ لکھا، جسے دور سے بھی واضح طور پر پڑھا جاسکتا ہے۔

پولیس نے اطلاع ملتے ہی گریتا فریڈمین کی ٹانگ پر ’می ٹو‘ لکھنے والے افراد کی تلاش شروع کردی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ گریتا فریڈمین کی ٹانگ پر ’می ٹو‘ لکھے جانے سے کم سے کم ایک ہزار امریکی ڈالر یعنی پاکستانی ایک لاکھ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔

ایسے مجسمے کم سے کم دیگر 4 مقامات پر بھی نصب ہیں—فوٹو: ڈیلی بیسٹ
ایسے مجسمے کم سے کم دیگر 4 مقامات پر بھی نصب ہیں—فوٹو: ڈیلی بیسٹ

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

نعمان احمد Feb 20, 2019 01:25pm
bilkul sahi likha hai