ڈی جی اینٹی کرپشن توہین عدالت کیس: عدالت کا وزیر اعلیٰ پنجاب کو طلب کرنے کا عندیہ

20 فروری 2019
جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی
جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) اینٹی کرپشن کے خلاف توہین عدالت کیس میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو طلب کرنے کا عندیہ دے دیا۔

جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ڈی جی ایل ڈی اے کی جانب سے ڈی اینٹی کرپشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی، اس دوران چیف سیکریٹری پنجاب یوسف نسیم کھوکھر عدالت میں پیش ہوئے۔

دوراب سماعت جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ چیف سیکریٹری ہمیں میئر لاہور اور ڈی جی ایل ڈی اے کی جانب سے شکایت موصول ہوئی کہ اینٹی کرپشن والے انہیں ہراساں کر رہے ہیں جبکہ عدالت نے گزشتہ سماعت میں اینٹی کرپشن کو ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔

مزید پڑھیں: میئر لاہور کا پنجاب حکومت پر بلدیاتی امور میں مداخلت کا الزام

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم کے فوری بعد ڈی جی ایل ڈی اے کے خلاف پرچہ درج کردیا گیا، کیوں نہ چیف چیف سیکرٹری آپ لوگوں کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا جائے۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگوں کو ایڈووکیٹ جنرل اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے ذریعے بتایا جارہا تھا، مگر آپ نے عدالتی احکامات کو نظر انداز کردیا، اس پر چیف سیکریٹری پنجاب نے کہا کہ میرا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں، اینٹی کرپشن والوں نے پرچہ کاٹنے سے قبل مجھ سے اجازت نہیں لی۔

اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر آپ کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں تو جائیں اپنے لیے نئی نوکری ڈھونڈ لیں، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا چیف سیکرٹری کہہ رہا ہے کہ اسے کچھ معلوم نہیں، پنجاب میں حکومت کون چلا رہا ہے بتائیں کس کو نوٹس کریں، ہم آپ سے اوپر نوٹس بھیجیں گے نیچے نہیں، کیا ہم نوٹس چندی گڑھ بھیجیں۔

عدالتی ریمارکس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اس معاملے میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے دفتر سے مشاورت نہیں کی گئی، اس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ اچھا آپ کو بھی علم نہیں بتا تو دیں پنجاب میں حکومت کس کی ہے۔

ساتھ ہی جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ چیف سیکریٹری آپ نے عدالتی حکم عدولی کرنے کے لیے ڈی جی ایل ڈی اے کو ہراساں کروایا۔

دوران سماعت جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ جو افسر عدالت کی معاونت کر رہا ہے، اسے ہی ہراساں کیا جارہا ہے، میرا خیال یے کہ یہ معاملہ نیب کا بنتا ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے چیف سیکریٹری کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ٹھیک ہے آپ اپنی ضمانت بعد از گرفتاری کروالیں، اس پر چیف سیکریٹری پنجاب نے کہا کہ ڈی جی اینٹی کرپشن مجھے رپورٹ نہیں کرتے۔

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ ڈی جی اینٹی کرپشن کب ریٹائر ہورہے ہیں؟ جس پر انہیں جواب دیا گیا کہ جی 22 فروری کو ریٹائر ہوں گے، اس پر پھر ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی مدت ملازمت میں توسیع ہورہی ہے؟

دوران سماعت جسٹس عظمت سعید نے مزید ریمارکس دیے کہ لگتا ہے یہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے وزیر اعلی کو خوش کر رہے ہیں، کیا ہماری حکم عدولی سے وزیر اعلی پنجاب خوش ہوتے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ڈی جی اینٹی کرپشن ہمارے پاس ہاتھ کھلوانے آئے تھے تاکہ دوسرے کے گلے دبا سکیں، ڈی جی اینٹی کرپشن نے ایل ڈی اے اور میٹرو پولیٹن کے کام کرنا شروع کر دیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا ملک میں نیا بلدیاتی نظام متعارف کروانے کا فیصلہ

اس پر ڈی جی اینٹی کرپشن نے جواب دیا کہ جہاں غلط کام ہوگا وہاں ریاست کے مفاد کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ اختیار آپ کو کونسا قانون دیتا ہے، ہمیں بتائیں۔

ساتھ ہی جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ ڈی جی اینٹی کرپشن کے بیان کے بعد کوئی شک نہیں رہا کہ پنجاب میں حکومت کون چلا رہا ہے، چیف سیکریٹری پنجاب کوئی اور نوکری ڈھونڈ لیں۔

اس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت سے کہا کہ موقع دیں جو غلط کام ہوا اس کی درستی کریں گے، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر 27 فروری تک کام نہ ہوا تو وزیر اعلیٰ پنجاب کو طلب کریں گے۔

بعد ازاں عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی استدعا پر سماعت 27 فروری تک ملتوی کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں