ٹرمپ نے داعش کی حامی امریکی خاتون کیلئے واپسی کے ’دروازے‘ بند کردیئے

21 فروری 2019
داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی کینیڈین اور امریکی خاتون—فوٹو:بشکریہ نیویارک ٹائمز
داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی کینیڈین اور امریکی خاتون—فوٹو:بشکریہ نیویارک ٹائمز

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی امریکی خاتون ہدیٰ متنا کی ملک واپسی کے تمام ’دروازے‘ بند کردیئے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ ’میں نے سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو کو ہدایت دی اور انہوں نے مکمل طورپر تسلیم کیا کہ ہدیٰ متنا کو ملک میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز نیویارک ٹائمز میں شائع رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دہشت گرد تنظیم داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی امریکی اور کینیڈین خاتون اپنے اپنے ملک واپسی کے لیے پراُمید ہیں۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ شام کے پناہ گزین کیمپ میں موجود امریکی خاتون ہدیٰ متنا کالج کی طالبعلم تھی اور والدین سے جھوٹ بول کر ٹیوشن فیس پر ترکی سفر کیا اور بعدازاں شام پہنچ کر داعش میں شمولیت اختیار کی۔

مذکورہ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد گزشتہ شب ہی امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’امریکا میں پیدا ہونے والی ہدیٰ متنا کی واپسی ناقابل قبول ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کی 3 لڑکیاں داعش میں شامل

خبررساں ادارے اےایف پی کے مطابق انہوں نے کہا تھا کہ ’وہ اب امریکی شہری نہیں اور انہیں ہرگز واشنگٹن قبول نہیں کرے گا‘۔

دوسری جانب ہدیٰ متنا نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’مجھے یقین نہیں کہ میں نے خود اپنی زندگی اور مستقبل برباد کردیا‘۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ’نومبر 2014 میں شام کی سرحد میں داخل ہوئی، داعش نے مجھے خواتین کی خواب گاہ میں رکھاجہاں پر دنیا بھر سے غیر شادی شدہ لڑکیاں موجود تھیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہر روز داعش کے جنگجو ایک لسٹ لے کر خواب گاہ میں داخل ہوتے اور شادی کے لیے لڑکیوں کو ساتھ لے جاتے‘۔

ہدیٰ متنا نے بتایا تھا کہ ’ہمیں شادی سے قبل خواب گاہ چھوڑنے کی اجازت نہیں تھی‘۔

مزید پڑھیں: خاتون کی بچوں کو چھوڑ کر داعش میں شمولیت

امریکی خاتون کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ 4 برس کے دوران، ان کی داعش کے 3 جنگجوؤں سے شادی ہوئی تاہم اب وہ اپنے عمل پر شدید پشیمان ہیں اور امریکا میں اپنے گھر واپس جانا چاہتی ہیں‘۔

خیال رہے کہ ہدیٰ متنا نے خود کو داعش کے خلاف اتحادی فوجیوں کے حوالے کردیا تھا جس کے بعد وہ شام کے شمال جنوب میں واقع پناہ گزین کیمپ میں شب و روز گزار رہی ہیں۔

اسی کیمپ میں موجود دوہری شہریت کے حامل 46 سالہ خاتون غوین پولمین نے بتایا کہ وہ 2015 کے اواخر میں شام پہنچی۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ’ان کی شادی ابو ایمن سے ہوئی تاہم ایک سال بعد ہی اپنی غلطی کا احساس ہوا اور فرار کی کوشش کی تاہم داعش کے انٹیلیجنس اہلکاروں نے گرفتار کرلیا‘۔

کینیڈا کے کالج میں زیر تعلیم رہنے والی غوین پولمین نے بتایا کہ ’انہیں رقہ کی جیل میں قید کردیا گیا تھا جہاں انہوں نے کئی سال گزارے‘۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: 22 لاپتہ ہندوستانیوں کی داعش میں شمولیت

انہوں نے بتایا کہ ’مجھے متعدد مرتبہ تفتیش کے لیے سیل سے نکالا گیا اور ایک رات میرا ریپ بھی کیا گیا‘۔

غوین پولمین کا کہنا تھا کہ ’داعش کے جنگجووں نے دھمکی دی کہ اگر ریپ سے متعلق کسی کو بتایا تو جاسوسی کے الزام میں قتل کردی جاؤں گی‘۔

بعدازاں غوین پولمین نے بھی خود کو اتحادی فوجیوں کے حوالے کر دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’امریکی یا کینیڈین حکام سے کوئی رابطہ نہیں اس لیے ریڈ کراس سے مدد کے لیے پہنچے ہیں‘۔

غوین پولمین نے بتایا کہ’ وہ ایک وکیل سے رابطے میں ہیں جو شمالی امریکا میں ان کی واپسی کے لیے کوشش کررہا ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں