لاپتہ افراد کے مقدمات کا اندراج کروانا ریاست کی ذمہ داری، عدالت

اپ ڈیٹ 21 فروری 2019
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ لاپتہ افراد سے متعلق مقدمے کا اندراج کروانا ریاست کی ذمہ داری ہے — فائل فوٹو/ شٹر اسٹاک
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ لاپتہ افراد سے متعلق مقدمے کا اندراج کروانا ریاست کی ذمہ داری ہے — فائل فوٹو/ شٹر اسٹاک

کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کے معاملے میں پولیس کی جانب سے مقدمے کا اندراج نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی مدعی کی جانب سے پیش نہیں ہوتا تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقدمے کا اندراج کروائے۔

جسٹس نعمت اللہ پھلپوتو کی سربراہی میں سندھ ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے درجنوں لاپتہ افراد کے معاملے میں ہوم سیکریٹری، انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ، رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل اور دیگر کو 27 مارچ کے نوٹسز جاری کردیئے۔

ظفر اقبال نامی لاپتہ فرد کے والد کی جانب سے دائر پٹیشن میں عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ان کے بیٹے کو 2 سال قبل سائٹ سپر ہائی وے تھانے کی حدود سے حراست میں لیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائی کورٹ کا لاپتہ افراد کے کیسز میں اضافے پر تشویش کا اظہار

درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے ان کے بیٹے کو لاپتہ کیے جانے سے متعلق اب تک مقدمے کا اندراج نہیں کیا۔

عدالت کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ لاپتہ افراد کا مقدمہ درج کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے اور اگر متاثرہ شخص کے اہل خانہ کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوتا تو ریاست کو لازمی طور پر مقدمے کا اندراج کروانا چاہیے۔

عدالت عالیہ نے دیگر 3 لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے متعلقہ حکام کو ملک بھر میں موجود قیدیوں، زیر حراست افراد اور حراستی مراکز کا ریکارڈ دیکھنے کی ہدایت بھی کی۔

اس کے علاوہ عدالت نے حکام کو لاپتہ افراد کا موبائل فون ڈیٹا حاصل کرنے کی ہدایت بھی کی۔

رانجھانی قتل کیس میں ملزمان کے ریمانڈ میں توسیع

انسداد دہشت گردی عدالت کے منتظم جج نے جئے سندھ تحریک (جے ایس ٹی) کے مقامی رہنما ارشد رانجھانی کے قتل کیس میں ملیر یونین کونسل کے چیئرمین کے جسمانی ریمانڈ میں 24 فروری تک کی توسیع کردی۔

خیال رہے کہ 18 فروری کو مجسٹریٹ کی جانب سے واقعے کو اقدام قتل قرار دینے اور اسے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت سماعت کیے جانے کے فیصلے کے بعد منتظم عدالت نے یوسی چیئرمین عبدالرحیم شاہ اور سب انسپکٹر ریاض حسین کو پولیس تحویل میں دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: رانجھانی قتل کیس: یو سی چیئرمین اور سابق پولیس اہلکار کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

گزشتہ روز کیس کے تفتیشی افسر نے دوبارہ ملزمان کو عدالت میں پیش کیا تاہم عدالت نے تفتیشی افسر کی جانب سے کیس میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل نہ کرنے پر ان کی سرزنش کی۔

جس پر تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ انہوں نے مجسٹریٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے لیکن عدالت نے ریمارکس دیئے کہ تفتیشی افسر کو ہر صورت میں عدالت کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے تھا جب تک کہ اس فیصلے کو معطل یا کالعدم قرار نہیں دے دیا جاتا۔

عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ حکام کو واقعے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کے لیے مراسلہ ارسال کردیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: ارشاد رانجھانی ہلاکت، تحقیقاتی ٹیم کی سفارش پر 'ذمہ دار شخص' گرفتار

ابتدائی طور پر پولیس نے یوسی چیئرمین کو ایک شخص کو قتل کرنے جبکہ پولیس افسر کو زخمی رانجھانی کو ہسپتال منتقل کرنے کے بجائے تھانے لے جا کر ڈکیتی کا مقدمہ درج کرنے کے الزامات کے تحت نامزد کیا تھا۔

خیال رہے کہ جے ایس ٹی کے رہنما ارشد رانجھانی کو 6 فروری کو ملیر کے علاقے میں یوسی چیئرمین نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔


یہ رپورٹ 21 فروری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں