عالمی عدالت میں کلبھوشن یادیو کیس کی سماعت مکمل

اپ ڈیٹ 22 فروری 2019
عدالت کیس کا فیصلہ عوامی سطح پر سنائے گی، عالمی عدالت انصاف — فائل فوٹو
عدالت کیس کا فیصلہ عوامی سطح پر سنائے گی، عالمی عدالت انصاف — فائل فوٹو

دی ہیگ: عالمی عدالت انصاف میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کی سماعت مکمل ہوگئی۔

عالمی عدالت سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کلبھوشن یادیو کیس کی عوامی سماعت مکمل ہوگئی ہے، جس کے بعد عدالت اب اپنی مشاورت شروع کرے گی۔

پیس پیلیس میں 18 فروری کو شروع ہونے والی کیس کی سماعت کے دوران پاکستانی وفد کی قیادت سابق اٹارنی جنرل انور منصور نے بطور ایجنٹ کی، جبکہ بھارتی وفد کی قیادت وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری دیپک میتَل کر رہے تھے۔

بیان میں کہا گیا کہ عدالت کیس کا فیصلہ عوامی سطح پر سنائے گی تاہم فیصلے کی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

بھارت کو برطانوی رپورٹ کے حقائق میں خامی کی نشاندہی کا چیلنج

قبل ازیں کیس کی سماعت کے آخری روز پاکستانی وکیل بیرسٹر خاور قریشی نے بھارتی وکیل کے جواب پر جواب الجواب دیا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کا کہنا ہے کہ یہ کیس صرف قونصلر رسائی کا ہے، لیکن وہ یہ جواب نہیں دے رہا کہ جاسوس کو کیسے قونصلر رسائی دی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارتی وکیل ہریش سیلو نے پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے کسی نقطے کا جواب نہیں دیا اور عدالتی توجہ ہٹانے اور گمراہ کرنے کی کوشش کی۔

خاور قریشی نے کہا کہ بھارت نے اپنے دلائل کو دھماکہ خیز قرار دیا، اجیت دوول اگر لندن جائیں تو جیمز بانڈ کی آسامی ان کے لیے خالی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے کلبھوشن کے پاسپورٹ سےمتعلق برطانوی رپورٹ عالمی عدالت میں پیش کردی

انہوں نے کہا کہ بھارت نے کلبھوشن یادیو کے پاسپورٹ سے متعلق سوالات کا جواب بھی نہیں دیا، بھارت کا یہ کہنا کہ 2 پاسپورٹ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا افسوسناک ہے، ہزاروں پاسپورٹس کی تحقیقات کرنے والے برطانوی ماہر کو غیر مستند کہنا افسوسناک ہے، جبکہ بھارت کا یہ کہنا کہ ویانا کنونشن کسی جاسوس کو قونصلر رسائی کی اجازت دیتا ہے غلط ہے۔

پاکستانی وکیل نے بھارت کو چیلنج کیا کہ وہ برطانوی رپورٹ کے حقائق میں کسی خامی کی نشاندہی کرے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز عالمی عدالت انصاف میں زیر سماعت کلبھوشن یادیو کیس میں بھارت کلبھوشن یادیو کی رہائی کے اپنے ہی مطالبے سے دستبردار ہوگیا تھا۔

ڈیڑھ گھنٹے پر مشتمل بھارت کے جواب میں سینیئر وکیل ہارش سیلو نے پاکستان کی جانب سے کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی دیے جانے سے قبل بھارتی شہریت ثابت کرنے کے مطالبے پر پہلی مرتبہ بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ اہم نقطہ نہیں ہوسکتا، پاکستان کی جانب سے را کے افسران کے پاکستان میں داخلے کے حوالے سے 25 مارچ 2016 کو پالیسی میں تبدیلی جاری کی گئی تھی اور را کا افسر ہونے کے لیے آپ کو بھارتی شہری ہونا ضروری ہے۔'

انہوں نے کہا کہ بھارت نے یادیو کی قونصلر رسائی اس لیے طلب کی کیونکہ وہ بھارتی شہری ہے، اگر اس کی قومیت ظاہر کرنے کی اتنی ہی ضرورت تھی تو بھارت کی جانب سے 13 مرتبہ پاکستان کو بھیجی گئی درخواستوں پر پاکستان نے ایک مرتبہ بھی جواب دیتے ہوئے شواہد طلب کیوں نہیں کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے کبھی اس کی شہریت مسترد نہیں کی، اپنے شہریوں سے لاتعلقی کا اظہار بھارت نہیں بلکہ پاکستان کرتا ہے۔

ہارش سیلو کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس اگر کچھ بھی ہے تو وہ پاسپورٹ ہے جس کا بھارت نے بہت پہلے ہی جواب دیا تھا کہ کلبھوشن یادیو غیر تصدیق شدہ بھارتی پاسپورٹ جس پر اس کا مسلمانوں والا نام درج تھا، پر سفر کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’پاسپورٹ رکھنے سے آپ دہشت گرد نہیں ہوجاتے ہو، پاکستان کی جانب سے کلبھوشن کی دہشت گردی میں ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں دیے گئے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے کلبھوشن یادیو کو فوجی عدالت میں سنائی گئی سزا کا تفصیلی فیصلہ بھی بھارت کی جانب سے متعدد درخواستوں کے باوجود آج تک نہیں دیا گیا ہے۔

کلبھوشن یادیو

یاد رہے کہ ’را‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔

بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کہ انہیں ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد 'را' کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔

ویڈیو میں کلبھوشن نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔

بعدازاں اپریل 2017 کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے کلبھوشن یادیو کو پاکستان کی جاسوسی، کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت سنانے کا اعلان کیا گیا تھا، جس کی توثیق 10 اپریل کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی تھی۔

بھارت نے 9 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی پھانسی کے خلاف اپیل دائر کی تھی، اور درخواست کی تھی کہ آئی سی جے پاکستان کو بھارتی جاسوس کو پھانسی دینے سے روکے۔

عالمی عدالت انصاف میں کی گئی درخواست میں بھارت نے پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیاتھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق جاسوسی کے الزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جاسکتا۔

بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو ایک بے قصور تاجر ہے جسے ایران سے اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی را ایجنٹ ہونے کا اعتراف کروایا گیا لیکن بھارت اغوا کیے جانے کے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کرسکا تھا۔

خیال رہے کہ 13 دسمبر 2017 کو کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھارت کی شکایت پر پاکستان کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں جوابی یاد داشت جمع کرائی گئی تھی۔

جس کے بعد گزشتہ برس 18 مئی کو عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد دفتر خارجہ نے آگاہ کیا تھا کہ آئی سی جے کے حکم پر حکومتِ پاکستان نے متعلقہ اداروں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کردی ہے۔

مزید پڑھیں: کلبھوشن کیس: پاکستان نے عالمی عدالت میں تحریری جواب جمع کرا دیا

واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے کیے گئے دعووں پر اب تک پاکستان اور بھارت کی جانب سے 2،2 جوابات داخل کروائے جاچکے ہیں۔

تاہم بھارت یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا کہ کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ سے کب اور کس طرح ریٹائر ہوا، کیونکہ پکڑے جانے کے وقت کلبھوشن کی عمر 47 برس تھی۔

علاوہ ازیں بھارت کو اس بات کی وضاحت دینے کی ضرورت ہے کہ کلبھوشن یادیو کے پاس جعلی شناخت کے ساتھ اصلی پاسپورٹ کیسے آیا، جس کو اس نے 17 مرتبہ بھارت آنے جانے کے لیے استعمال بھی کیا اور اس میں اس کا نام حسین مبارک پٹیل درج تھا۔

یاد رہے کہ دسمبر 2017 میں پاکستان نے کلبھوشن کے لیے ان کی اہلیہ اور والدہ سے ملاقات کے انتطامات کیے تھے۔

یہ ملاقات پاکستان کے دفترِ خارجہ میں ہوئی جہاں کسی بھی بھارتی سفیر یا اہلکار کو کلبھوشن کے اہلِ خانہ کے ساتھ آنے کی اجازت نہیں تھی۔

مذکورہ ملاقات کے دوران کلبھوشن یادیو نے اپنی اہلیہ اور والدہ کے سامنے بھی بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے لیے جاسوسی کا اعتراف کیا تھا، جسے سن کر دونوں خواتین پریشان ہوگئی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں