کراچی میں جاں بحق ہونے والے پانچوں بہن بھائی بلوچستان میں سپرد خاک

بچوں کو تشویش ناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ان کے موت کی تصدیق کی گئی تھی— فوٹو: سید علی شاہ
بچوں کو تشویش ناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ان کے موت کی تصدیق کی گئی تھی— فوٹو: سید علی شاہ

کراچی میں ایک ریسٹورنٹ کا کھانا کھانے کے بعد جاں بحق ہونے والے پانچوں بہن بھائیوں کو بلوچستان میں ان کے آبائی علاقے خانوزئی میں سپرد خاک کردیا گیا۔

واضح رہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والا خاندان دو روز قبل کراچی پہنچا تھا اور ایک ریسٹورنت کا کھانا کھانے کے بعد پانچ بچے جاں بحق ہو گئے تھے۔

مزید پڑھیں: کراچی: مبینہ مضر صحت کھانا کھانے سے 5 کم سن بہن بھائی جاں بحق

بچوں کی والدہ کی حالت فوری طبی امداد کے نتیجے میں اب خطرے سے باہر ہے لیکن ان کی پھوپھی نجی ہسپتال میں دوران علاج دم توڑ گئیں۔

بچوں کی لاشوں کو پاک بحریہ کے جہاز میں گزشتہ رات کراچی سے کوئٹہ ایئرپورٹ منتقل کردیا گیا تھا جہاں بچوں کے والد فیصل دیگر اہلخانہ کے ساتھ ساتھ صوبائی وزیر صحت نصیب اللہ مری اور عوامی نیشنل پارٹی کے وزیر زمرک خان اچکزئی بھی موجود تھے۔

کراچی میں جاں بحق ہوجانے والے بچوں کو بلوچستان کے ضلع پشین کے علاقے خانوزئی میں واقع آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔

ڈیڑھ سالہ عبدالعلی، 4 سالہ عذیر، 6 سالہ عالیہ، 7 سالہ توحید اور 9سالہ سلویٰ کی نماز جنازہ اور تدفین میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور اس موقع پر ہر آنکھ اشک بار نظر آئی۔

یہ بھی پڑھیں: کلفٹن میں مضر صحت کھانا کھانے سے 2 بچے جاں بحق

بچوں کے والد فیصل اخوند زادہ نے میڈیا سے درخواست کی کہ ان کی فیملی کی خاطر خدارا ٹی وی چینلز واقعے کی بریکنگ نیوز چلانے سے گریز کریں کیونکہ اس سے ان کی بیوی پر شدید نقسیاتی اثرات پڑ رہے ہیں۔

فیصل اخونزادہ نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ وہ رات کو اپنی اہلیہ کو کراچی کے آغا خان ہسپتال لے کر گئے تھے تاہم انہیں صبح ان کی بہن کا فون پر میسج ملا کہ اب چیزیں ان کے کنٹرول سے باہر ہو گئی ہیں۔

یہ بدقسمت خاندان پکنک منانے کے لیے کراچی آیا تھا اور خضدار اور حب پر قیام کے بعد جمعرات کو کراچی پہنچا تھا جہاں انہوں نے مقامی ریسٹورنٹ سے بریانی لے کر وفاقی گیسٹ ہاؤس قصرِ ناز میں قیام کیا تھا۔

فیصل اخونزادہ نے مطالبہ کیا کہ ان کے بچوں کی موت کی وجہ ہر حال میں معلوم ہونی چاہیے۔

واضح رہے کہ فیصل اخونزادہ علاقے کی مشہور مذہبی شخصیت مرحوم علامہ عبدالعلی اخونزادہ کے پوتے ہیں جنہوں نے اپنے علاقے میں تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کی اور یہی وجہ ہے کہ خانوزئی میں شرح خواندگی بلوچستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

دوسری جانب بچوں کی پھوپھی بھی کراچی کے نجی ہسپتال میں دم توڑ گئیں۔

واقعے کے بعد پولیس نے نوبہار ریسٹورنٹ سیل کردیا گیا— فوٹو: اے پی پی
واقعے کے بعد پولیس نے نوبہار ریسٹورنٹ سیل کردیا گیا— فوٹو: اے پی پی

28سالہ بینا کو بھی گزشتہ روز تشویش ناک حالت میں ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا تاہم وہ ہفتے کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئیں۔

ایس ایس پی ساؤتھ پیر محمد شاہ نے بینا کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خاندان کے تمام چھ افراد کی موت زہریلا کھانا کھانے سے ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ واقعے کی ایف آئی آر کے اندراج کے لیے انہوں نے جاں بحق بچوں کے والد سے رابطہ کیا ہے جو اپنے بچوں کی تدفین کے سلسلے میں بلوچستان میں موجود ہیں۔

ایس ایس پی ساؤتھ نے کہا کہ بچوں کا پوسٹ مارٹم کرچی کے ڈاکٹر رتھ فاؤ سول ہسپتال میں کیا گیا تھا اور تحقیقات میں پولیس کا تمام تر انحصار لیبارٹری سے آنے والے نتائج پر ہے۔

مزید پڑھیں: ’مضر صحت خوراک سے سالانہ4 لاکھ 20ہزار اموات‘

یاد رہے کہ پولیس نے بچوں کی ہلاکت کے بعد ریسٹورنٹ کو سیل کر کے عملے کے 15 افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔

وزیر اعلیٰ سندھ کو واقعے کی ابتدائی رپورٹ پیش

سندھ فوڈ اتھارٹی نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کوئٹہ سے کراچی آنے کے بعد یہ خاندان قصر ناز میں ٹھہرا تھا اور دوران سفر انہوں نے خضدار اور حب میں کھانا کھایا تھا۔

رپورٹ کے مطابق کراچی پہنچنے پر اس فیملی نے نوبہار ہوٹل سے پارسل بریانی لی اور اسے اپنے کمرے میں کھایا، بریانی کھانے کے بعد ہی خاتون نے الٹیاں شروع کردیں جس پر ان کے شوہر انہیں علاج کے لیے فوراً کراچی کے نجی ہسپتال لے کر گئے۔

اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ جب خاندان کے سربراہ ہسپتال سے صبح کمرے میں پہنچے تو ان کے پانچ بچے اور ایک رشتے دار کمرے میں بے ہوش پڑے تھے جنہیں فوراً ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں پانچوں بچوں کو مردہ قرار دے دیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق سندھ فوڈ اتھارٹی نے ’نوبہار ریسٹورنٹ‘ سے کھانے کے نمونے حاصل کیے اور قصر ناز کے کمرے سے بھی کھانے کے نمونے حاصل کیے گئے ہیں جنہیں ٹیسٹ کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کمشنر کراچی کو ہدایت کی تھی کہ وہ بچوں کے والد سے خود جا کر ملیں اور اگر وہ واپس کوئٹہ جانا چاہتے ہیں تو ان کے لیے تمام انتظام کیا جائے۔

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ کراچی کے کسی ریسٹورنٹ میں مضر صحت کھانا کھانے سے بچوں کی ہلاکت ہوئی ہو، گزشتہ سال کلفٹن کے علاقے میں واقع ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے دوران دو بچے دم توڑ گئے تھے۔

تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ریسٹورنٹ کے ایک گودام میں زائد المیعاد گوشت موجود تھا، ریسٹورنٹ میں کھانے کے دوران ڈیڑھ سالہ احمد اور 5 سالہ محمد جاں بحق ہوئے تھے بعد ازاں جاں بحق بچوں کے والد نے ریسٹورنٹ کے مالک کو معاف کرکے مقدمہ واپس لے لیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں