مہمند ڈیم منصوبے کی لاگت کم ہوکر 291 ارب روپے ہوگئی

اپ ڈیٹ 24 فروری 2019
پی پی آر اے، منصوبے کی بولیوں کے حوالے سے تشخیصی رپورٹ ویب سائٹ پر ڈالے گی — اے ایف پی/فائل فوٹو
پی پی آر اے، منصوبے کی بولیوں کے حوالے سے تشخیصی رپورٹ ویب سائٹ پر ڈالے گی — اے ایف پی/فائل فوٹو

اسلام آباد: واپڈا حکام کے مطابق پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کی جانب سے مہمند ڈیم منصوبے کی بولیوں اور لاگت کے حوالے سے تشخیصی رپورٹ جلد ان کی ویب سائٹ پر ڈال دی جائے گی جبکہ اس منصوبے کی لاگت کم ہوکر 291 ارب روپے ہوگئی۔

وزیر اعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد کی کمپنی ڈیسکون انجینئرنگ کی جانب سے سب سے کم 309 ارب روپے کی بولی لگائی گئی تھی۔

حکام نے ڈان کو بتایا کہ واپڈا کی جانب سے بولیوں کی تکنیکی تشخیص کے بعد منصوبے کی لاگت میں 18 ارب روپے کی کمی سامنے آئی اور منصوبے کی کل لاگت اب 291 ارب روپے ہوگئی ہے۔

مزید پڑھیں: مہمنڈ ڈیم کا ٹھیکہ ’متنازع ٹھیکیدار‘ کو دینے کی منظوری

تشخیصی رپورٹ کو عوام کے لیے جاری کیا جانا، اربوں روپے کے منصوبے کے معاہدے کے لیے پہلا بڑا قدم ہوگا۔

اس کے بعد واپڈا کی جانب سے کمپنیوں کو کام کے آغاز کا لیٹر جاری کیا جائے گا۔

تمام متعلقہ دستاویزات پی پی آر اے کی ویب سائٹ پر جاری کیے جائیں گے کیونکہ قانون کے مطابق 50 ارب سے زائد کے عوامی منصوبوں کے تمام دستاویزات کو عوام میں پیش کرنا ہوتا ہے۔

پی پی آر اے کے قوانین کے سیکشن 47 کے مطابق ’جیسے ہی کنٹریکٹ دیا جائے، پروکیورمنٹ کرنے والے بولیوں کی تمام متعلقہ دستاویزات اور کنٹریکٹ کو عوام میں پیش کریں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کا مہمنڈ ڈیم کے ٹھیکے کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ

واپڈا کا کہنا تھا کہ تکنیکی بولیوں کی تشخیص کی وجہ سے منصوبے میں 18 ارب روپے کی کمی آئی، جن میں ٹینڈر دستاویزات میں غلطیوں کی کمی وغیرہ شامل ہیں۔

حکام کا کہنا تھا کہ ’ایک بڑا ڈیم بنانا کنسٹرکشن کا ایک بڑا کام ہے کیونکہ اس کے لیے 10 لاکھ سے زائد کیوبک فٹ کانکریٹ کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کی لاگت دیگر انفرا اسٹرکچر کے کاموں سے زیادہ ہے‘۔

خیال رہے کہ مہمند ڈیم میں 19 لاکھ ایکڑ فٹ پانی جمع کرنے کی گنجائش ہوگی اور اس میں 800 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہوگی۔

اس سے تقریباً 17 ہزار ایکڑ فٹ زمین بھی زیر آب آئے گی، اس منصوبے پر تقریباً 5 دہائی سے مختلف وجوہات کی بنا پر کام رکا ہوا تھا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 24 فروری 2019 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں