پاکستان کی جانب سے جو جواب دیا گیا، وہ وعدے کے عین مطابق اور سرحدوں کی خلاف ورزی کیے بغیر دیا گیا ہے۔ یوں ایک بار کچھ حقائق واضح طور پر ثابت ہوگئے۔ جیسے کہ پاکستانی حکام نے یہ واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ پاکستان نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ اپنی حدود میں رہتے ہوئے بھارتی حصے میں ٹارگٹس کو نشانہ بنایا ہے۔

فضائی جنگ جاری ہے اور پاکستانی کارروائی کے نتیجے میں بھارتی جہاز تباہ ہوئے اور ایک پائلٹ اب ہمارے قبضے میں ہے، لیکن اب کیا ہوگا، اس کے بارے میں شاید کوئی نہیں جانتا، لیکن کیا ہونا چاہیے یہ بالکل واضح ہے۔

مزید پڑھیے: جنگیں کیوں لڑی جاتی ہیں؟

بھارت اور پاکستان کو فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان کرنا چاہیے، بین الاقوامی برادری کو ہنگامی بنیادوں پر سفارتی سطح پر مداخلت کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ کسی بھی قیمت پر دونوں ممالک کے درمیان چھائے جنگ کے بادلوں کو صاف کیا جاسکے۔

پاکستان کی جانب سے گزشتہ روز جو کارروائی کی گئی، وہ ہرگز ایکشن نہیں، بلکہ ری ایکشن تھا اور بھارت کی جانب سے سرحدوں کی خلاف ورزی پر اپنے دفاع میں کیا گیا عمل تھا۔

لہٰذا اب بھارت کو مزید کسی کارروائی سے خود کو روکنا ہوگا اور دنیا کو بھی بھارت کو قائل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی طرح اس بھارتی جنون کے آگے بند لگائے جاسکیں۔

ہم جس جگہ پہنچ چکے ہیں یہاں سے بغیر سوچے سمجھے تنازعے اور تباہی کا فاصلہ جنگ سے متعلق حکمت عملی، منصوبہ سازی اور فیصلہ سازوں سے بھی کم ہوسکتا ہے۔

گزشتہ روز وزیرِاعظم پاکستان نے ایک بار پھر مذاکرات پر زور دیتے ہوئے بھارت کو دعوت دی کہ وہ آئے اور دہشت گردی سمیت تمام مسائل پر بیٹھ کر بات کرے۔ دوسری طرف ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ اگرچہ پاکستان حملے کی صورت میں جواب دے گا، لیکن یہ دونوں ممالک اور خطے میں امن کے فروغ کے لیے نقصان دہ ہوگا۔

پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی جانب سے جو جواب دیا گیا وہ انسان دوست، سنجیدہ اور حقیقت پسندانہ ہے۔ پاکستان کی عوام اور یہاں کے میڈیا نے بھی اس عزم کو دہرایا کہ وہ جنگ نہیں بلکہ خطے میں امن کے خواہاں ہیں۔

کیا بھارت نے واقعی اپنی جنگی زبان اور عمل کے اثرات کے بارے میں سوچا ہے؟ دونوں ممالک اب تک 4 جنگیں لڑچکے ہیں اور ان چاروں میں سے 3 جنگیں کشمیر کے مسئلے پر لڑی گئی ہیں اور ہر ایک جنگ میں دونوں طرف کی افواج اور لوگوں کی قیمتی جانوں کا ہی نقصان ہوا ہے

جیسا کہ وزیرِاعظم عمران خان نے خود کل کہا کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم ویسے ہی بدترین نتائج بھگت چکے ہیں پھر چاہے وہ انسانی المیہ ہو یا قیمتی جانوں کا نقصان۔ بھارتی سخت گیر اور غصے سے بھرپور رویہ شاید اس انجام سے بے خبر ہے کہ جنگ کے دونوں ممالک پر کس طرح بُری اثرات مرتب ہوں گے۔

مزید پڑھیے: گرفتار بھارتی پائلٹ ابہی نندن کی پاک فوج کے رویے کی تعریف

آج کے نیوکلئیر دور میں اگر جنگ چھڑ جاتی ہے تو اس کا نقصان کس قدر زیادہ ہوگا، یہ ہماری سوچ سے بھی باہر ہے۔ بھارت کا چاہے جتنا بھی دباو ہو، لیکن ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اگر ہم اس جنون سے نہیں نکلے تو یہ خطہ رہنے کے قابل نہیں رہے گا اور جنگ کے نتیجے میں یہاں شاید اتنا فوجی اور انسانی نقصان ہوگا جس کے آگے گزشتہ صدی میں ہونے والی 2 عالمی جنگوں کا نقصان بھی کم لگنے لگے۔

بھارتی رویہ نامناسب بھی اور غصے سے بھرا ہوا بھی ہے، پاکستان اگرچہ غصے میں ہے مگر اپنی بات پر قائم ہے، جبکہ دنیا خبردار ہے۔ حالات کی سنگینی اور خطرات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس خطے میں ہمیشہ ہی جنگ کا متبادل موجود رہتا ہے، لہٰذا بھارت کو سمجھنا چاہیے اور امن کی جانب قدم اٹھانا چاہیے۔


یہ اداریہ 28 فروری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں