مصر: معروف صحافی 5 سالہ سزا مکمل کرنے کے بعد رہا

اپ ڈیٹ 05 مارچ 2019
صحافی کو جرمانے کی عدم ادائیگی پر 6 ماہ اضافی سزا کاٹنا پڑی — فوٹو: اے ایف پی
صحافی کو جرمانے کی عدم ادائیگی پر 6 ماہ اضافی سزا کاٹنا پڑی — فوٹو: اے ایف پی

مصر کے مشہور فوٹوجرنلسٹ محمود ابوزید 2013 میں دھرنے میں شامل ہونے کے الزام میں 5 سالہ قید کاٹنے کے بعد رہا ہوگئے اور اپنے کام کو بدستور جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق رہائی پانے والے صحافی کے وکیل طاہر ابوالناصر کا کہنا تھا کہ انہیں علی الصبح پولیس اسٹیشن سے رہا کردیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے گزشتہ برس ان کی رہائی کا حکم دیا تھا لیکن 2013 میں رابعہ الداویہ میں کارروائی کے دوران املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں عائد جرمانے کی عدم ادائیگی کے باعث محمود ابوزید مزید 6 ماہ تک سلاخوں کے پیچھے رہے۔

یاد رہے کہ مصری صحافی کو 2013 میں اخوان المسلمون کے احتجاج میں شریک ہونے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی، جہاں حکومتی کارروائی میں سیکڑوں شہری جاں بحق ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: مصر: الجزیرہ چینل کے صحافی کی حراست میں 17ویں مرتبہ توسیع

محمود ابوزید اگست 2013 میں دارالحکومت قاہرہ کے رابعہ العداویہ اسکوائر میں اخوان المسلمون کے کارکنوں کے احتجاج کی تصاویر بنارہے تھے، اخوان کے کارکن منتخب صدر محمد مرسی کو حکومت سے دستبردار کرکے گرفتار کرنے کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔

مصر کی فوج کے سربراہ عبدالفتح السیسی کے صدر منتخب ہونے کے بعد محمود ابو زید کا مقدمہ بھی عدالتوں میں آیا تھا جبکہ السیسی حکومت کی جانب سے میڈیا اور صحافیوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں اور حالیہ برسوں میں درجنوں صحافیوں کو گرفتار کیا گیا جبکہ کئی غیر ملکی صحافیوں کو ملک بدر کردیا گیا۔

محمود ابوزید المعروف شاکان جیل سے رہائی کے بعد اپنے قاہرہ میں گھر پہنچ گئے ہیں اور اپنے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ‘میں پانچ سال بعد گھر واپس آگیا ہوں، میں تصاویر لینے جارہا تھا’۔

رہائی کے بعد پولیس اسٹیشن میں رپورٹ دی—فوٹو:اے پی
رہائی کے بعد پولیس اسٹیشن میں رپورٹ دی—فوٹو:اے پی

محمود ابو زید کی والدہ ردا نے کہا کہ ‘مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میرا دوبارہ جنم ہوا ہے اور مجھے سکون محسوس ہورہا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں رات کو جاگ کر سوچا کرتی تھی اور خود سے کہتی تھی کہ محمود آج یا کل واپس آئے گا’۔

محمود ابو زید شاکان نے کہا کہ قید کے دوران اور رہائی کے بعد انہیں قریبی پولیس اسٹیشن میں رپورٹ دینی پڑی اور ہر رات شام 6 بجے سے صبح 6 بجے تک وہی رہنا پڑتا تھا کیونکہ انہیں اس وقت پولیس کی نگرانی میں رکھا گیا تھا۔

دوران قید 5 برسوں میں انہیں اپنے اثاثوں اور جائیداد کے حوالے سے انتظامات سے بھی روک دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: مصر میں 3 صحافیوں کو سزائے موت سنادی گئی

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان اقدامات کو ظالمہ قرار دیتے ہوئے اس کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی نمائندہ ناجیہ بونیم کا کہنا تھا کہ ‘محمود ابو زید ناانصافی کا شکار ہیں اور حکومت ان کے بنیادی حقوق کی پامالی کو فوری ختم کرے’۔

پابندیوں کے باوجود محمود ابو زید (شاکان) کا کہنا تھا کہ وہ بطور فوٹو جرنلسٹ اپنا کام جاری رکھیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں پہلا یا آخری صحافی نہیں ہوں جس کو قید کردیا گیا ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: مصر: الجزیرہ کے صحافیوں کو 3 سال قید کی سزا

اقوام متحدہ کی ثقافتی ایجنسی (یونیسکو) نے مصری حکومت کی پابندیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے گزشتہ برس اپریل میں محمود ابوزید کو ورلڈ پریس فریڈم کا ایوارڈ دیا تھا۔

ایوارڈ کی تقریب کے دوران یونیسکو کی جانب سے منتخب کی کمیٹی کی صدر ماریا ریسا نے کہا تھا کہ یہ ایوارڈ خطرناک صورت حال میں آزادی صحافت کو زندہ رکھنے والے صحافیوں کو دیا جاتا ہے اور انہیں یہ ایوارڈ دینے کا مقصد ان کی جرات اظہار آزادی کے لیے ان کے عزم کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔

خیال رہے کہ سیسی حکومت نے 2013 سے تاحال ان تمام افراد کو نشانہ بنایا ہے جنہوں نے ان کی طرز حکومت پر تنقید کی اور اسی پاداش میں اخوان المسلمون کے ہزاروں کارکنوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا

تبصرے (0) بند ہیں