سپریم کورٹ کا نئی گج ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم

عدالت عظمیٰ کی جانب سے وفاقی اور سندھ حکومت پر اظہار برہمی کیا گیا—فوٹو: وکی پیڈیا
عدالت عظمیٰ کی جانب سے وفاقی اور سندھ حکومت پر اظہار برہمی کیا گیا—فوٹو: وکی پیڈیا

سپریم کورٹ نے نئی گج ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم دیتے ہوئے وفاقی اور سندھ حکومت کو واپڈا کو فنڈز کی بروقت فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نئی گج ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کی جانب سے وفاقی اور سندھ حکومت پر اظہار برہمی کیا گیا۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ بارشوں کا سارا پانی سمندر میں گر کر ضائع ہوجائے گا، سندھ حکومت شاید 2010 کا سیلاب بھول چکی ہے، سیلاب میں پانی کا سارا بہاؤ نئی گج کےمقام پر ہی تھا۔

مزید پڑھیں: نئی گج ڈیم کی تعمیر: ’کھانچے مارنے کیلئے منصوبے شروع کیے جاتے ہیں‘

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کی کام کرنے کی نیت ہی نہیں ہے، حکومت سندھ چاہتی ہی نہیں کہ اس کے صوبے میں کام ہو۔

اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت میں بتایا کہ وفاقی حکومت اپنے حصے کے فنڈز دینے پر آمادہ ہے لیکن سندھ حکومت نے تاحال فنڈز دینے پر جواب نہیں دیا۔

جس پر جسٹس گلزار نے پوچھا کہ کیا وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان کوئی رابطے نہیں؟ نئی گج ڈیم کے لیے ہر سال پیسہ مختص ہوتا ہے جو ضائع کر دیا جاتا ہے، 30 سال سے اس ڈیم کا معاملہ چل رہا ہے، سندھ حکومت کو آخر مسئلہ کیا ہے، عوامی مفاد کے کام ایک دوسرے کے کندھے پر ڈال دیے جاتے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے نئی گج ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم دیتے ہوئے وفاق اور سندھ حکومت کو واپڈا کو فنڈ کی بروقت فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔

عدالت نے پلاننگ ڈویژن اور سیکریٹری آبپاشی سندھ سے فنڈز کی فراہمی پر عملدرآمد رپورٹ طلب کرلی جبکہ عدالتی فیصلے پر وزارت قانون سے رائے مانگنے پر کابینہ ڈویژن سے بھی جواب مانگ لیا۔

جس کے بعد سپریم کورٹ نے مذکورہ کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ نئی گج ایک ہل ٹورینٹ (پانی کا ماخذ) ہے جو بلوچستان کے خضدار ضلع سے نکلتا ہے اور کچ کے میدانی علاقوں سے گزرنے کے بعد یہ بالآخر منچھر جھیل میں داخل ہوتا ہے، نئی گج کا علاقہ 8 ماہ کے لیے خشک رہتا ہے جبکہ مون سون کے سیزن کے دوران 4 ماہ یہاں پانی رہتا ہے۔

منچھر جھیل کے اپنی حد پر پہنچنے اور مون سون سیزن میں میں مزید پانی حاصل کرنے کی پوزیشن نہ ہونے پر نئی گج سے بہنے والا پانی عمومی طور پر سیلاب کے تحفظ کے لیے باندھے گئے بند کو تباہ کرتا ہوا زرعی زمین کو زیر آب لے آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘خواہش تھی نئی گج ڈیم کی تعمیر کا معاملہ میرے ہوتے ہوئے حل ہو‘

درخواست میں کہا گیا کہ زرعی زمین کے زیر آب آنے، گھروں کے تباہ ہونے اور کھڑی فصلوں کو نقصان پنچانے کے بعد مون سون کا پانی سمندر میں گرتا ہے اور ایسا کرنے سے بڑی تعداد میں پانی ضائع ہوتا ہے۔

اسی بات کو دیکھتے ہوئے اور پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے نئی گج ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا تھا اور 25 اپریل 2012 میں سندھ کے ضلع دادو میں نئی گج ڈیم کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

اس منصوبے کو اپریل 2015 تک مکمل ہونا تھا لیکن غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے یہ اب تک مکمل نہیں ہوسکا، جس کی وجہ سے اس ڈیم کی لاگت کا تخمینہ بھی بڑھ گیا ہے، جسے کم کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کے اتفاق سے ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Mar 05, 2019 04:30pm
اصل بات یہ ہی ہے جو جسٹس صاحب نے کہی کہ سندھ حکومت کی کام کرنے کی نیت ہی نہیں ہے، حکومت سندھ چاہتی ہی نہیں کہ اس کے صوبے میں کام ہو۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ نے کل ہی کہا تھا کہ سول سروس میں اصلاحات کے نام پر جو احتساب شروع کیا گیا ہے اس کی وجہ سے صوبے کی حالت بہت بھیانک ہوگئی ہے، کوئی بھی افسر فیصلے لینے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ ایک ایک ریٹائرڈ افسر کا بھی اتنا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے کہ اس کا اب مذاق اڑنے لگا ہے۔ اگر وزیر اعلیٰ کی بات درست ہے تو 30 سال سے اس ڈیم کا معاملہ کیوں چل رہا ہے؟ کے فور منصوبے سے لے کر کراچی کی اسکیمیں تیسر ٹائون ہو یا پھر ہاکس بے اسکیم ہو یا پھر ذوالفقار آباد، سب کا برا حال ہے یہاں تک کے بقول شہیدوں کا شہر لاڑکانہ بھی کسی ڈائن کے ہاتھوں برباد لگتا ہے، سندھ حکومت کام کرے، ڈٹ کر کام کرے، ایماندار اور قابل شخص کو نیب، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن والوں سے کیا ڈر۔۔۔۔۔۔