سینیٹ: اپوزیشن کا بھارتی آبدوزکی داخلے کی کوشش پر ان کیمرا اجلاس کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 07 مارچ 2019
اپوزیشن اراکین نے حکومتی اقدامات پر سخت تنقید کی—فائل/فوٹو:ڈان
اپوزیشن اراکین نے حکومتی اقدامات پر سخت تنقید کی—فائل/فوٹو:ڈان

سینیٹ میں اپوزیشن نے بھارتی آبدوز کی پاکستانی حدود میں داخلے کی کوشش کے معاملے پر ان کیمرا اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ اگر بھارت، پاکستان کی فضائی، بری یا بحری حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے تو ہم جوابی کارروائی نہیں کریں گے۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت اجلاس میں بھارتی آبدوز کی پاکستانی حدود میں داخلے کی کوشش کے معاملے پر بحث کی گئی جہاں اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ اس حوالے سے ایوان کو آگاہ کیا جائے۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن نے آبدوز کے معاملے سے ایوان کو آگاہ کرنے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ ہم نے پاکستان کی سالمیت کے معاملے پر ہمیشہ تعاون کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے بھارت سے کچھ مانگا نہیں اور نہ ہی مذاکرات کے لیے مر رہے ہیں لیکن کشمیر کا مسئلہ اب بھی وہیں کا وہیں ہے۔

سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ بھارت کی مستقل جارحیت کے بعد بھی گو مگو کی صورت حال ہے۔

مزید پڑھیں: پاک بحریہ نے پاکستانی حدود میں بھارتی دراندازی کی کوشش ناکام بنادی

بھارتی جارحیت پر حکومتی اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بھارت کی حملے کی صورت میں جوابی کارروائی کی جبکہ کہا جا رہا ہے کہ بھارت نے دہشت گردی کے حملے کا جواب دیا اور اس بیانیے کے خلاف ہمیں کچھ سننے میں نہیں آرہا، حکومت اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نیوی نے بیان دیا کہ بھارتی آبدوز نے پاکستانی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن وزارت خارجہ کی جانب سے اس حوالے سے کوئی جواب نہیں آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ شاکر اللہ کے قتل پر بھارت سے کیا سوال کیا گیا ہے، وزارت خارجہ کس نیند میں ہے، وزرا ان ایوانوں کو جواب دہ ہوتے ہیں اور ٹی وی پر جانا ضروری نہیں ہوتا، پچاس وزرا پر مشتمل کابینہ ہے اور ایوان میں کوئی نظر نہیں آتا۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کون چلا رہا ہے، بتایا جائے ہم ان سے براہ راست بات کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی آبدوز کی مداخلت کی کوشش کے معاملے پر ایوان کو آگاہ کیا جائے اور ان کمیرا اجلاس بلا کر بریفنگ دی جائے۔

اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینٹر جاوید عباسی نے کہا کہ نیوی نے کہا ہم بھارتی آبدوز کو مار سکتے تھے لیکن اس لیے نہیں مارا کیونکہ ہم امن چاہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ اگر بھارت، پاکستان کی فضائی، بری یا بحری حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے تو ہم جوابی کارروائی نہیں کریں گے، وزیر خارجہ کو اس حوالے سے ایوان کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔

یہ بھی پڑھیں:’بھارتی آبدوز کا سراغ لگانا پاک بحریہ کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے‘

سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ جو بھی معاملات ہیں اس پارلیمنٹ میں لے کر آئیں، ہمیں کسی سے سوال تو پوچھنا ہے کہ ہماری پالیسی کیا چل رہی ہے، او آئی سی نے اعلامیے میں ہمارے حوالے سے ایک لفظ نہیں لکھا۔

'کسی دوست ملک نے کھل کر بھارت کی مذمت نہیں کی'

سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آج کے اور نہ پرانے راولپنڈی کے حکمرانوں کے سامنے محب وطن ہونے کا ثبوت دینا ہے۔

بھارتی جارحیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسٹریٹجک پارٹنر بھارت کو پولیس مین آف دی ریجن بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اسی لیے یہ سارے کا سارا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

انہوں نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایوان میں آکر کوئی پالیسی بیان نہیں دیا گیا حالانکہ کسی بھی دوست ملک نے بھارتی جارحیت کی کھل کر مذمت نہیں کی۔

رضاربانی نے کہا کہ کہا جا رہا ہے کہ مستقبل میں بھارت او آئی سی کا رکن بنے گا، اس معاملے پر پارلیمان کی مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جائے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی اور خطے کی صورت حال کا جائزہ لے گی اور یہ کمیٹی مشاورت اور تجاویز کے بعد سفارشات تیار کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ امریکا خاموش بیٹھا رہا لیکن جب پاکستان نے بھارت کے جہاز گرائے تب واشنگٹن میں ہل چل مچی اور پھر کہا گیا کہ تحقیقات ہو رہی ہیں کہ کہیں ایف-16 تو استعمال نہیں ہوئے۔

مزید پڑھیں: جے ایف-17 تھنڈر اور ایف-16 : دونوں میں کیا فرق ہے؟

سابق چیئرمین سینیٹ نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا ایف-16 کے استعمال نہ ہونے سے متعلق کوئی معاہدہ ہوا ہے، دفاع کے طور پر بھی ایف-16 کا استعمال نہیں ہونا تو کیا ان کا اچار ڈالنا ہے، اس معاملے پر وزیر دفاع ایوان میں آکر جواب دیں۔

شاکر اللہ کے قتل پر حکومتی جواب

وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے شاکراللہ کے بھارتی جیل میں قتل کے حوالے سے کہا کہ دفتر خارجہ نے معلومات دی ہیں کہ شاکر اللہ کے قتل کی ایف آئی آر، جیل سپریٹنڈنٹ کے خلاف پاکستان میں درج کی جا رہی ہے۔

سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے سوال کیا کہ کس قانون کے تحت شاکر اللہ کے قتل کی ایف آئی آر بھارت میں درج ہو گی جس پر شیریں مزاری نے کہا کہ دفتر خارجہ نے قانون کے مطابق ہی ایف آئی آر درج کرنے کا کہا ہے اور اس حوالے سے مجھے دفتر خارجہ نے ہی آگاہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاک بھارت کشیدگی کم کرنے میں امریکا نے اہم کردار ادا کیا، وزیر خارجہ

ان کا کہنا تھا کہ شاکر اللہ کے قتل کا معاملہ بھارتی حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے، شاکر اللہ کے پوسٹ مارٹم کے دوران پاکستانی مشن کو موجود رہنے کی اجازت نہیں ملی تھی اس لیے پاکستان میں ان کا دوبارہ پوسٹ مارٹم کرایا گیا۔

وزیرانسانی حقوق نے کہا کہ ہم نے شاکر اللہ کے قتل کی شکایت آئی سی آر سی میں لکھ دی ہے اور اگر پارلیمنٹ قراداد منظور کرے تو حکومت شاکر اللہ کے خاندان کو معاوضہ دے گی۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کو تجویز دی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مشترکہ جوڈیشل کمیٹی کو بحال کیا جائے جس میں بھارت اور پاکستان کے ریٹایرڈ جج ہوتے تھے اور یہ کمیٹی پاکستان اور بھارت کی جیلوں کا دورہ کرکے قیدیوں کی حالت دیکھتی ہے۔

مزید پڑھیں:سیالکوٹ: بھارت میں شہید ہونے والے شاکر اللہ کی نماز جنازہ ادا کردی گئی

شیریں مزاری نے کہا کہ 2013 میں یہ کمیٹی پاکستان کی جانب سے بحال نہ ہونے پر ختم ہو گئی تھی لیکن اب ہم پاکستان اور بھارت کے درمیان مشترکہ جوڈیشل کمیٹی بحال کریں گے۔

سینیٹ اجلاس میں وزرا کی عدم شرکت پر احتجاج

سینیٹ میں اپوزیشن کی جانب سے وزرا کی عدم حاضری پر شدید احتجاج کیا گیا جس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ وزرا نہیں ہیں اور اپوزیشن لیڈر بھی موجود نہیں ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سینیٹر میاں عتیق نے کہا کہ جس دن وزیراعظم کا اجلاس ہو تو سینیٹ کا اجلاس نہ بلائیں تاہم چیئرمین سینیٹ نے واضح کیا کہ میری طرف سے کوئی رعایت نہیں، ہم اجلاس تو چلائیں گے جس کے بعد میاں عتیق نے کہا کہ جن وزرا کے سوالات ہیں اور ایوان میں غیر حاضر ہوں تو ان کو معطل کیا جائے۔

سینیٹر جہاں زیب جمالدینی نے کہا کہ وزیراعظم کو خط لکھ کر صورت حال سے آگاہ کیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ سینیٹ اجلاس کے دوران پارٹی اجلاس نہ بلائیں۔

اپوزیشن کے مطالبے پر چیئرمین سینیٹ نے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھنے کا فیصلہ کرتےہوئے کہا کہ وزرا کی عدم حاضری پر وزیر اعظم کو خط لکھوں گا۔

سینیٹ میں وزارت خزانہ کا تحریری جواب

وزارت خزانہ کی جانب سے اپنے تحریری جواب میں کہا گیا کہ گزشتہ تین برسوں 2015 سے 2018 کے دوران سمندر پار پاکستانیوں نے 58 ارب 89 کروڑ ڈالرز بھیجے۔

وزارت خزانہ نے گزشتہ چار ماہ کے دوران سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے ملنے والے قرضے اور امداد کی تفصیلات بھی سینیٹ میں پیش کیں اور کہا کہ سعودی حکومت سے 3 ارب ڈالرز موصول ہوئے اور یہ رقم 3 فیصد سالانہ کی شرح منافع پر ایک سال کے لیے ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کسی بھی جارحیت میں ملکی دفاع کو یقینی بنائیں گے، سربراہ پاک فضائیہ

چین کے حوالے سے کہا گیا کہ چینی حکومت نے 298.98 ملین ڈالرز دینے کا وعدہ کیا ہے اور متحدہ عرب امارات سے ایک ارب ڈالرز موصول ہوئے ہیں جو 3 فیصد سالانہ شرح منافع پر دو سال کے لیے ہیں۔

سینیٹ کو بتایا گیا کہ 20 فروری 2019 تک پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر کی کل مالیت 14793 ملین امریکی ڈالرز تھے، ان میں سے 8013 ملین ڈالرز اسٹیٹ بینک اور 6780 ملین ڈالرز کمرشل بینکوں میں پڑے ہیں۔

حکومت کے اندرونی قرضوں کے حوالے سے ایوان کو بتایا گیا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے ستمبر 2018 سے دسمبر 2018 تک اندرونی طور پر 746 ارب روپے قرض اور اسی دوران ملک کے غیر ملکی قرضہ جات 1313 ملین ڈالرز تھے۔

وزارت خارجہ کی بریفنگ کے دوران مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہداللہ خان نے وزیراعظم عمران خان کی بہن علیمہ خان سے پیسوں کی وصولی سے متعلق سوال کیا جس پر وزیر مملکت خزانہ حماد اظہر نے جواب دیا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے اور ہم نے علیمہ خان سے پہلی وصولی شروع کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ علیمہ خان نے منی لانڈرنگ نہیں کی بلکہ ٹیکس چھپایا ہے تاہم علیمہ خان تعاون کر رہی ہیں اور انہوں نے وصولی کے لیے ہانمی بھری ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں