حکومت کا آئی ٹی شعبہ کے لیے خصوصی ٹاسک فورس کے قیام کا فیصلہ

07 مارچ 2019
وفاقی وزیر آئی ٹی او ایل ایکس ٹیم سے ملاقات کرتے ہوئے — فوٹو بشکریہ او ایل ایکس
وفاقی وزیر آئی ٹی او ایل ایکس ٹیم سے ملاقات کرتے ہوئے — فوٹو بشکریہ او ایل ایکس

پاکستان میں آن لائن خریداری کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے اور اس حوالے سے کئی کمپنیاں کام کررہی ہیں جن میں سے ایک او ایل ایکس بھی شامل ہے۔

اب یہ کمپنی اور وفاقی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی مواصلات پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے صنعتی ترقی کے فروغ کے لیے اکھٹے کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔

وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی مواصلات ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے دبئی میں او ایل ایکس پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر بلال باجوہ سے ملاقات کی، جس میں اشتراکی معیشت اور ٹیکنالوجی کے منظر نامہ کے حوالے سے اہم تجاویز پر غور کیا گیا۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہمارے پاس منفرد ترقیاتی مواقع موجود ہیں اور ہمیں ان سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ او ایل ایکس جیسے برانڈ حکومت پاکستان کو خصوصی معاونت فراہم کر سکتے ہیں،تاکہ وسیع پیمانے پر معاشی ترقی کو یقینی بنایا جائے،ٹیکنالوجی کے شعبہ میں ترقی سے ، ملک بھر میںنوجونوں کے لئے ملازمت کے مواقع، تعلیمی قابلیت اور استعداد بڑھانے میں بھی کامیابی ہو گی۔

اس موقع پراو ایل ایکس چیف ایگزیکٹیو آفیسر بلال باجوہ نے کہا کہ ہماری سہولیات کا مقصد گھریلو اشیاءاور کاروباری آلات کی خرید و فروخت میں تیزی لانا ہے، جس کا مجموعی مالّیاتی حجم اربوں ڈالر بنتا ہے۔اس کے علاوہ، او ایل ایکس ٹیکنالوجی کے شعبہ میں کام کرنے والے نوجوانوں اور کاروباری افراد کی تربیت بھی کر رہا ہے،ہمیں امید ہے کہ پاکستان مستقبل میں عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کا ایک اہم مرکز بن جائے گا۔

اس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ہر ماہ 70 لاکھ سے زائد افراد او ایل ایکس کا استعمال کرتے ہیں،جبکہ ہر دو سیکنڈ میں ایک نئی چیز خرید و فروخت کے لئے اس وسیع اور جدید پلیٹ فارم پر پیش کی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق او ایل ایکس کے ذریعے جو مصنوعات اور اشیاءپاکستانی معیشت میں گردش کرتی ہیں ، ان کا مجموعی حجم تقریباً 20 ارب روپے ماہانہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور وزارت کے افسران کا کہنا تھا کہ اشتراکی معیشت اور آئی ٹی شعبہ کی ترقی کے حوالے سے مشاورت جاری رکھنے کے لئے ایک خصوصی ٹاسک فورس ترتیب دی جا رہی ہے، جس میں ٹیکنالوجی کمپنی کی نمائندگی بھی ضروری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں