مولانا سمیع الحق کے سیکریٹری سے قتل کے الزامات واپس لے لیے گئے

اپ ڈیٹ 08 مارچ 2019
مولانا سمیع الحق کو گزشتہ سال ان کی رہائش پر تیز دھار آلے کے وار کر کے قتل کردیا گیا تھا— فائل فوٹو: اےا یف پی
مولانا سمیع الحق کو گزشتہ سال ان کی رہائش پر تیز دھار آلے کے وار کر کے قتل کردیا گیا تھا— فائل فوٹو: اےا یف پی

راولپنڈی: جوڈیشل مجسٹریٹ نے سابق سینیٹر مولانا سمیع الحق کے سیکریٹری پر سے معروف عالم دین کے قتل کے الزامات واپس لے لیے۔

مولانا سمیع الحق کے بیٹوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنے والد کے سیکریٹری سید احمد شاہ کو ان کے قتل میں مورد الزام نہیں ٹھہراتے جس پر جوڈیشل مجسٹریٹ نے الزام واپس لے لیا۔

مزید پڑھیں: مولانا سمیع الحق کے قتل کے الزام میں مفرور سیکریٹری گرفتار

احمد شاہ کو 28فروری کو ایئرپورٹ پولیس نے قتل کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور جسمانی ریمانڈ کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا تھا۔

انہیں چار دن تک پولیس ریمانڈ میں دیا گیا جس میں جمعہ کو مزید دو روز کی توسیع کردی گئی تھی کیونکہ پولیس کا کہنا تھا وہ ان سے مزید تفتیش کرنا چاہتے ہیں کیونکہ سابقہ تفتیش ایسا کوئی نتیجہ نہیں نکلا جسے وہ قتل کے مقدمے میں بطور ثبوت پیش کر سکیں یا جو اصل قاتل کو ڈھونڈنے میں مددگار ہو۔

چھ روزہ ریمانڈ کی مدت جمعرات کو ختم ہوئی تو انہیں جوڈیشل مجسٹریٹ زیب شہزاد چیمہ کے سامنے پیش کیا گیا۔

مولانا سمیع الحق کے بیٹوں حامد الحق اور حافظ راشد الحق بھی عدالت میں پیش ہوئے جہاں انہوں نے حلف نامہ جمع کراتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے والد کے قتل کے جرم میں احمد شاہ کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا۔

مولانا حامد الحق نے ڈان کو تصدیق کی کہ وہ اپنے بھائی کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے عدالت سے استدعا کی کہ احمد شاہ قتل کا ملزم نہیں کیونکہ ان کے والد کے قتل میں کوئی بہت بڑی طاقت ملوث ہے لہٰذا ہم کسی معصوم انسان کو ان کے قتل کے مقدمے میں پھنسانا نہیں چاہتے۔

انہوں نے عدالت سے مزید کہا کہ حلف نامہ جمع کرائے جانے کے بعد عدالت احمد شاہ پر سے قتل کے تمام الزامات واپس لے۔

حامد الحق نے مزید کہا کہ پولیس نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ مقدمہ بند نہیں کیا جائے گا اور مولانا سمیع الحق کے قتل کی تفتیش جاری رہے گی۔

ریجنل پولیس افسر احمد اسحاق جہانگیر نے ڈان کو بتایا کہ احمد شاہ کے بیان میں مستقل تضاد اور پولی گراف ٹیسٹ میں ناکامی پر پولیس نے انہیں گرفتار کیا۔

دو نومبر 2018 کو جب بحریہ ٹاؤن میں واقع رہائش گاہ پر نامعلوم افراد نے مولانا سمیع الحق کا چھریوں کے وار کر کے قتل کیا تو اس وقت احمد شاہ ان کے ہمراہ موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ’خدشہ ہے مولانا سمیع الحق کو اپنوں نے قتل کیا‘

احمد شاہ نے اپنے ابتدائی بیان میں کہا تھا کہ وہ فلٹریشن پلانٹ سے پانی بھرنے کے لیے گھر کا دروازہ باہر سے بند کر کے چلے گئے تھے، اس دوران نامعلوم نے گھر میں گھس کر مولانا سمیع الحق پر چھریوں کے وار کیے اور فرار ہو گئے۔

بعدازاں انہوں نے اپنا بیان تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے باہر سے دروازہ بند نہیں تھا۔

اب تک مولا سمیع الحق کے قتل کی پیشرفت کے حوالے سے پولیس کی جانب سے کوئی بھی بیان نہیں دیا گیا۔


یہ خبر 8 مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں