'پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا'، یعنی پاکستان سپر لیگ کے مقابلے اب وہاں آ گئے ہیں کہ جہاں درحقیقت انہیں ہونا چاہیے تھا، جی ہاں! پاکستان میں۔ میدان بدل گئے لیکن لاہوریوں کی قسمت نہیں بدلی کہ جو اسلام آباد کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد اپنی امیدوں کے چراغ بجھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

نیشنل اسٹیڈیم، کراچی پاکستان سپر لیگ 2019ء کے آخری 8 مقابلوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ ان میں پہلے مرحلے کے آخری 4 میچز بھی شامل ہیں کہ جن میں سے پہلا مقابلہ اسلام آباد یونائیٹڈ اور لاہور قلندرز کے مابین ہوا، جو ریکارڈ شکن بھی تھا اور لاہوریوں کے لیے دِل شکن بھی۔ غالباً سیزن میں پہلی بار ہم نے تماشائیوں کی اتنی بڑی تعداد کو میدان میں دیکھا ہوگا۔ نیشنل اسٹیڈیم میں یہ میچ دیکھنے کے لیے تقریباً 30 ہزار افراد موجود تھے کہ جن کے سامنے لاہور قلندرز چاروں خانے چت ہوگئے جبکہ اسلام آباد یونائیٹڈ ایک مرتبہ پھر اگلے مرحلے میں پہنچ گیا۔

نیشنل اسٹیڈیم، کراچی پاکستان سپر لیگ 2019ء کے آخری 8 مقابلوں کی میزبانی کر رہا ہے—پی ایس ایل ٹوئٹر اکاؤنٹ
نیشنل اسٹیڈیم، کراچی پاکستان سپر لیگ 2019ء کے آخری 8 مقابلوں کی میزبانی کر رہا ہے—پی ایس ایل ٹوئٹر اکاؤنٹ

نیشنل اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے کے لیے تقریباً 30 ہزار افراد موجود تھے—پی ایس ایل ٹوئٹر اکاؤنٹ
نیشنل اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے کے لیے تقریباً 30 ہزار افراد موجود تھے—پی ایس ایل ٹوئٹر اکاؤنٹ

مقابلے کی خاص بات تھی کیمرون ڈیلپورٹ کی دھواں دار سنچری، جنہوں نے صرف 60 گیندوں پر 117 رنز بنائے، وہ بھی ناقابلِ شکست رہ کر۔ دوسرے کھلاڑیوں نے بھی حصہ بقدر جثّہ ڈالا جیسا کہ آصف علی کی طوفانی نصف سنچری، صرف 21 گیندوں پر ناٹ آؤٹ 55 رنز اور پھر فہیم اشرف کی باؤلنگ کہ جنہوں نے ایک ہائی اسکورنگ میچ میں صرف 19 رنز دے 6 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ یعنی اسلام آباد کا وار دُہرا نہیں بلکہ تہرا تھا، جس کے سامنے کوئی بھی ہوتا ٹِک نہ پاتا، یہ تو پھر زخموں سے بے حال لاہور قلندرز تھے۔

میچ کا ٹرننگ پوائنٹ تھا وہ لمحہ جب تیسرے اوور میں کیمرون ڈیلپورٹ کا ایک آسان کیچ چھوڑا گیا۔ تب وہ صرف 27 رنز پر کھیل رہے تھے۔ پھر تو ڈیلپورٹ کے بلّے سے نکلنے والا ہر رنز قلندروں کے زخموں پر نمک چھڑکتا رہا۔ کیچ چھوڑنے والے سہیل اختر نے بیٹنگ میں 34 گیندوں پر 75 رنز بنا کر ازالہ کرنے کی کوشش تو کی لیکن 239 رنز جیسے ہمالیہ جیسے ہدف کا تعاقب کرنا ہو تو کسی ایک بیٹسمین کا چلنا کافی نہیں ہوتا۔ سہیل کو دوسرے اینڈ سے ایک، دو اچھی اننگز کی ضرورت تھی، جو کوئی نہ کھیل پایا، یہاں تک کہ لاہور 49 رنز کی بہت بڑی شکست سے دوچار ہوگیا۔

اب بھی لاہور کا ایک میچ باقی ہے، 'پنجاب ڈربی' جس میں انہوں نے ملتان کے خلاف کھیلنا ہے۔ یہاں کامیابی مل بھی جائے تو لاہور کا پلے آف تک پہنچنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ پھر معاملہ اگر، مگر میں چلا جائے گا۔ یعنی اگر لاہور ملتان کے خلاف بڑی کامیابی حاصل کرے اور کراچی اپنے آخری دونوں میچز ہار جائے، تب بہتر نیٹ رن ریٹ پر فیصلہ ہوگا کہ کراچی اور لاہور میں سے کون اہم ترین مرحلے میں جائے گا؟

کراچی کے آخری دونوں میچز ٹاپ ٹیموں یعنی کوئٹہ اور پشاور کے خلاف ہیں یعنی اُن کے لیے بھی معاملہ اتنا آسان نہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ یہ میچز کراچی میں کھیلے جا رہے ہیں، ہوم گراؤنڈ کی برتری ملے یا نہ ملے لیکن کنگز کو حوصلہ بڑھانے والا کراؤڈ ضرور ملے گا۔ پشاور اور کوئٹہ دونوں اگلے مرحلے میں پہنچ چکے ہیں اور یقیناً وہ اپنے آخری میچ میں کچھ نئے کھلاڑیوں کو آزمائیں گے۔ اگر اُن کے خلاف کراچی ایک میچ بھی جیت گیا تو پچھلے سال والی ٹیمیں ہی کوالیفائرز میں پہنچیں گی یعنی کوئٹہ، پشاور، اسلام آباد اور کراچی۔

کیمرون ڈیلپورٹ اور چیڈوک والٹن—پی ایس ایل ٹوئٹر اکاؤنٹ
کیمرون ڈیلپورٹ اور چیڈوک والٹن—پی ایس ایل ٹوئٹر اکاؤنٹ

اسلام آباد یونائیٹڈ اور لاہور قلندرز کے مابین ہونے والا مقابلہ ریکارڈ شکن بھی تھا اور لاہوریوں کے لیے دِل شکن بھی—پی ایس ایل ٹوئٹر اکاؤنٹ
اسلام آباد یونائیٹڈ اور لاہور قلندرز کے مابین ہونے والا مقابلہ ریکارڈ شکن بھی تھا اور لاہوریوں کے لیے دِل شکن بھی—پی ایس ایل ٹوئٹر اکاؤنٹ

پی ایس ایل 4 میں لاہور قلندرز کی ناکامی ایک بہت بڑا دھچکا ہے، صرف ٹیم اور اُن کے مداحوں کے لیے ہی نہیں بلکہ غیر جانب دار تجزیہ کرنے والوں کے لیے بھی۔ کیونکہ اِس مرتبہ قلندرز نے ایک بہت متوازن ٹیم کا انتخاب کیا تھا۔ لیکن بیچارے قسمت کہاں سے لاتے؟ پہلے کپتان محمد حفیظ زخمی ہو کر باہر ہوگئے، پھر کُل وقتی وکٹ کیپر برینڈن ٹیلر کی باری آئی اور اس کے بعد بھی جو کسر رہ گئی تھی وہ اے بی ڈی ولیئرز جیسے اہم ترین کھلاڑی کے زخمی ہونے سے نکل گئی۔ نتیجتاً نہ صرف بیٹنگ لائن بہت کمزور پڑ گئی، بلکہ قیادت اور مشاورت کے لیے درکار تجربہ بھی نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں لاہور کے کھیل میں وہ کاٹ نظر نہیں آئی جو ابتدائی مقابلے میں دیکھنے کو ملی تھی۔

اسلام آباد کا وار دُہرا نہیں بلکہ تہرا تھا، جس کے سامنے کوئی بھی ہوتا ٹِک نہ پاتا، یہ تو پھر زخموں سے بے حال لاہور قلندرز تھے—پی ایس ایل ٹوئٹر اکاؤنٹ
اسلام آباد کا وار دُہرا نہیں بلکہ تہرا تھا، جس کے سامنے کوئی بھی ہوتا ٹِک نہ پاتا، یہ تو پھر زخموں سے بے حال لاہور قلندرز تھے—پی ایس ایل ٹوئٹر اکاؤنٹ

قلندرز نے اپنے ابتدائی 6 مقابلوں میں سے 3 میں کامیابی حاصل کی تھی اور اپنے آخری 4 میچز میں بہتر کارکردگی پیش کرکے وہ باآسانی اگلے مرحلے تک رسائی حاصل کرسکتا تھا لیکن اہم کھلاڑیوں کی عدم موجودگی، قیادت کے خلاء اور اہم بیٹسمین زخمی ہونے کی وجہ سے ٹیم کا توازن بگڑ گیا اور نتیجہ مسلسل 3 شکستوں کی صورت میں نکلا اور اب کوئی معجزہ ہی انہیں باہر ہونے سے بچا سکتا ہے، اگر وہ رونما نہ ہوا تو پی ایس ایل ٹرافی ایک مرتبہ پھر یہ کہہ دے گی کہ 'پنجاب نہیں جاؤں گی'۔

تبصرے (0) بند ہیں