سپریم کورٹ: بحریہ ٹاؤن کی اراضی کی مد میں 485 ارب روپے کی نئی پیشکش

اپ ڈیٹ 12 مارچ 2019
بحریہ ٹاؤن نے کراچی کی 16 ہزار 896 ایکڑ کی زمین کی مد میں رقم کی ادائیگی کی پیش کش کی—فوٹو:فیصل مجیب
بحریہ ٹاؤن نے کراچی کی 16 ہزار 896 ایکڑ کی زمین کی مد میں رقم کی ادائیگی کی پیش کش کی—فوٹو:فیصل مجیب

اسلام آباد: بحریہ ٹاؤن نے اپنے کراچی، راولپنڈی، مری کے منصوبوں کی زمین کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے 4 سو 85 ارب روپے کی نئی پیشکش سپریم کورٹ میں جمع کروادی۔

عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی گئی اس نئی پیشکش میں بحریہ ٹاؤن نے تینوں منصوبوں کے لیے الگ الگ پیش کش کی ہے، جس میں سب سے زیادہ کراچی کے منصوبے کے لیے 440 ارب روپے دینے پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔

بحریہ ٹاؤن کے وکیل کی جانب سے جمع کروائی گئی پیش کش میں کہا گیا کہ کراچی کے بحریہ ٹاؤن کے لیے 440 ارب روپے، تخت پڑی راولپنڈی اراضی کے لیے 22 ارب روپے اور مری کے منصوبے کے لیے 23 ارب روپے دینے کو تیار ہیں۔

عدالت میں جمع کرائی گئی اس نئی پیش کش میں بحریہ ٹاؤن نے رقوم کی ادائیگی کی مدت میں بھی ایک سال کمی کردی ہے اور اب 485 ارب روپے کو 8 سال کی مدت میں ادا کرنے کی پیش کش کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: بحریہ ٹاؤن کی زمین کی مد میں 479 ارب روپے کی پیشکش

وکیل کی جانب سے درخواست میں کہا گیا ہے کہ 4 ارب 70 کروڑ روپے سندھ حکومت کو ادا کرچکے ہیں جبکہ 10 ارب 75 کروڑ روپے سپریم کورٹ کے پاس پہلے ہی جمع ہیں۔

پیشکش میں ادائیگی کو واضح کرتے ہوئے وکیل نے بتایا کہ پہلے 5 سال میں 2 ارب روپے ماہانہ کی قسط دی جائے گی جبکہ باقی 3 برسوں میں 8 ارب 33 کروڑ روپے ماہانہ ادائیگی ہوگی۔

وکیل کے مطابق اس پیشکش کی منظوری پر 20 ارب روپے کی پہلی قسط ادا کی جائے گی، لہٰذا عدالت عظمیٰ سے استدعا ہے کہ وہ زیر قبضہ زمین کو فوری طور پر بحریہ ٹاؤن کے نام پر منتقل کرے۔

خیال رہے کہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے عدالت میں جمع کروائی گئی اس پیش کش پر کل (13 مارچ) کو سماعت ہوگی۔

اس سے قبل گزشتہ سماعت میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اپنے تینوں منصوبوں کی زمین کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے 4 سو 79 ارب روپے سے زائد کی پیشکش کی گئی تھی۔

بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے گزشتہ پیش کش میں کہا تھا کہ صرف بحریہ ٹاؤن کراچی کی 16 ہزار 896 ایکڑز زمین کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے 9 سال میں 4سو 35 ارب روپے ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

اسی طرح تخت پڑی راولپنڈی کی 5 ہزار 4سو 72 کینال کی زمین کے لیے 21 ارب 88 کروڑ 80 لاکھ روپے جبکہ سلختر اور مانگا مری کے منصوبے کی 4 ہزار 5سو 42 کینال زمین کے عوض 22 ارب 71 کروڑ روپے کی پیش کش کی گئی تھی۔

تاہم عدالت نے بحریہ ٹاؤن کی اس پیش کش پر دوبارہ غور کرنے کا کہا تھا، جس کے بعد آج دوبارہ نئی پیشکش جمع کروائی گئی۔

بحریہ ٹاؤن کیس

4 مئی 2018 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ اور تبادلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو رہائشی، کمرشل پلاٹوں اور عمارتوں کی فروخت سے روک دیا تھا۔

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 1-2 کی اکثریت سے بحریہ ٹاؤن اراضی سے متعلق کیسز پر فیصلہ سناتے ہوئے اس معاملے کو قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیجنے اور 3 ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’بحریہ ٹاؤن نے وہ پلاٹ بھی فروخت کیے جو اس کی ملکیت نہیں تھے’

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کو اراضی کا تبادلہ خلاف قانون تھا، لہٰذا حکومت کی اراضی حکومت کو واپس کی جائے جبکہ بحریہ ٹاؤن کی اراضی بحریہ ٹاؤن کو واپس دی جائے۔

عدالت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی تحقیقات کا بھی حکم دیا گیا تھا جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے درخواست کی گئی کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیں۔

دوسری جانب عدالت نے اپنے ایک اور فیصلے میں اسلام آباد کے قریب تخت پڑی میں جنگلات کی زمین کی از سر نو حد بندی کا حکم دیا اور کہا کہ تخت پڑی کا علاقہ 2210 ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے، لہٰذا فاریسٹ ریونیو اور سروے آف پاکستان دوبارہ اس کی نشاندہی کرے۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی:الاٹمنٹ غیر قانونی قرار، پلاٹس کی فروخت روکنے کا حکم

عدالت نے اپنے فیصلے میں بحریہ ٹاؤن کو جنگلات کی زمین پر قبضے کا ذمہ دار قرار دیا اور مری میں جنگلات اور شاملات کی زمین پر تعمیرات غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مری میں ہاؤسنگ سوسائٹیز میں مزید تعمیرات کو فوری طور پر روکنے کا حکم دیا۔

بعد ازاں عدالت کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں دیے گئے فیصلے پر عمدرآمد کےلیے ایک خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

اس کیس میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اپنی زمین کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے پہلے 250 ارب روپے کی پیش کش کی تھی جسے مسترد کردیا تھا، جس کے بعد 16 ہزار ایکڑ زمین کے عوض 358 ارب روپے دینے کی پیشکش کی گئی تھی۔

تاہم اسے بھی عدالت نے مسترد کردیا تھا، جس کے بعد بحریہ ٹاؤن نے کراچی کے منصوبے کے لیے 405 ارب روپے کی پیش کش کی تھی لیکن عدالت نے اس پیش کش کو بھی مسترد کردیا تھا۔

تبصرے (2) بند ہیں

KHAN Mar 12, 2019 11:34pm
غلط ہمیشہ غلط ہوتا ہے، کسی فیصلے یا دستخط سے وہ صحیح نہیں ہوجاتا، نہ ہی بحریہ یا ڈیفنس نام رکھنے سے وہ مقدس ہوجاتا ہے۔
KHAN Mar 12, 2019 11:39pm
بحریہ ٹاؤن حاضر سروس اور رٹائرڈسرکاری افسران کی ملی بھگت سے ملک بھر میں بہت سارے گھپلوں، قبضوں، دستاویزات میں گڑبڑ، جھوٹ، دھوکا دہی میں ملوث ہے اور اس کے مقرر کردہ ڈیلر بھی اس حوالے سے کسی سے کم نہیں اور سیر پر سوا سیر ہے۔ بحریہ ٹاؤن پھر بھی عدالت کو 485 ارب روپے دینے کے لیے تیار ہے اور شاید معاملہ 1000 ارب روپے پر حل ہوجائے مگر اس کے ساتھ ساتھ ڈی ایچ اے کراچی نے سپرہائی وے پر بحریہ ٹاؤن سے زیادہ زمین ( کسی بھی طریقے سے نہایت ارزاں نرخوں پر) حاصل کی ہوئی ہے اور وہاں پلاٹ بحریہ ٹاؤن سے بھی مہنگے ہیں، انکو بھی حکومت کو ادائیگی کرنی چاہیے۔ بحریہ ٹاؤن نے غیرقانونی ذرائع استعمال کرکے زمین حاصل کی جبکی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کو کوڑیوں کے بھاؤ زمین دی گئی، سپریم کورٹ نے پہلے بھی کہا تھا کہ عدالت کا فیصلہ بحریہ ٹاؤن اور DHA کے لیے ایک برابر ہوگا،اسی طرح سابق چیف جسٹس نے DHA کا آڈٹ کرنے کا حکم دیا تھا، آڈٹ کرکے DHA سے رقم وصول کی جائے۔ اور اسکے بعد کسی کو بھی بڑا رقبہ دینے پر پابندی عائد کردی جائے۔ نئے کنٹونمنٹ بنانا بند کیا جائے، اداروں کے نام کو بٹہ لگنا اور گھپلے برداشت نہیں۔