اس شہر میں ہروقت ہنستے رہنے کا قانون اب مکمل طور پر نافذ ہوچکا تھا، سو اب وہاں کسی کو بھی رونے یا اداس رہنے کی اجازت نہیں تھی۔

پولیس کے جوان گلی گلی گھومتے اور اگر انہیں کوئی بغیر مسکراہٹ کے ملتا تو اسے فوراً گرفتار کرلیتے۔ رفتہ رفتہ ملک میں اداس لوگ ختم ہوگئے اور وہاں ایک ناختم ہونے والی اداسی پھیل گئی کہ جس میں قہقہوں کاشور تھا لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام فقط اداس چہرے ختم کرنا تھا۔

گلیوں بازاروں میں ہر کوئی چہرے پر مسکراہٹ سجائے گھوم پھر رہا ہوتا اور لوگ پولیس کے جوانوں کو دیکھ کر اونچے اونچے قہقہے لگاتے تاکہ انہیں یقین ہوجائے کہ وہ لوگ اداس نہیں ہیں۔

کچھ لوگوں نے ماہر ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرکے اپنے جبڑے اس طرح ڈیزائن کرالیے تھے کہ مسکرانے کے لیے انہیں کوشش نہیں کرنی پڑتی تھی، سوتے جاگتے مسکراہٹ ان کے چہرے کا حصہ تھی۔

ایسی کیفیات اور حالات کہ جن میں آدمی کے لیے رونا اشد ضروری ہوجاتا ہے اس کے لیے انتظامیہ سے اجازت نامہ بنوانا پڑتا تھا۔ قانون نافذ ہونے کے بعد اجازت نامہ بنانے والے ادارے کے باہر ایک لمبی قطار تھی جو شہر کے ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک تھی، وہاں لوگ قہقہے لگاتے ہوئے اپنے رونے کے اجازت نامے بنوارہے ہوتے۔ انتظامیہ رنگ، نسل، حادثہ اور دکھ کے حساب سے اجازت نامے جاری کرتی۔

اس شہر کے لوگ کسی حادثہ کی خبر سنتے تو جیب سے اپنا اجازت نامہ نکالتے، اگر دکھ ان کے اجازت نامے کے مطابق نہ ہوتا تو وہ چپ چاپ آگے بڑھ جاتے ورنہ فوراً گلے میں اپنا اجازت نامہ لٹکا لیتے جس پر دکھ کی تفصیلات لکھی ہوتی تھیں۔

رفتہ رفتہ اس شہر کے لوگوں کی آنکھوں سے نمی کم ہونے لگی اور ایک ہنستی مسکراتی اداسی نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

اسی شہر میں ایک نوجوان جو بے حد اداس تھا اسے کوشش کے باوجود مسکرانا نہ آیا تو اس نے خود کو گھر میں قید کرلیا۔ وہ کھڑکی سے باہر گلی میں دیکھتا رہتا جہاں ہنستے مسکراتے لوگ گزر رہے ہوتے یا انہوں نے چہرے پر اجازت نامے لٹکائے ہوئے ہوتے اور وہ انہیں دیکھ دیکھ کر حیران ہوتا رہتا۔ وہ بے حد دکھی اور پریشان تھا۔

پہلے کبھی کبھار اسے کوئی اپنی طرح اداس چہرہ بھی مل جاتا لیکن جب سے یہ قانون باقاعدہ نافذ ہوا تو اداس چہرے یکدم ختم ہوگئے تھے۔ وہ جب کبھی پولیس کو دیکھتا تو فوراً کھڑکی سے ہٹ جاتا کہ کہیں وہ اس کی اداسی نہ دیکھ لیں۔

ایک روز کھڑکی سے اس نے اپنے پڑوسی کو دیکھا جو اپنے بیمار بچے کو ہسپتال لے کر جارہا تھا اور اس کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی، غالباً اس کا بچہ بہت زیادہ بیمار تھا۔ اسی دوران پولیس کا آدمی گشت کرتا ہوا اس گلی میں آن پہنچا، آدمی نے جیسے ہی پولیس والے کو دیکھا تو فوراً اونچی آواز میں ہنسنے لگا۔

’جناب وہ میرا بچہ بیمار ہوگیا ہے، ہسپتال لے کر جارہا ہوں، ہاہاہا‘ آدمی نے ہنستے ہوئے کہا۔

’لیکن جب میں گلی میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ تم اداس ہو تمہارا چہرہ کچھ پریشان تھا کیا مجھے تمہیں جیل لے کر جانا چاہیے؟ ہاہاہا‘ پولیس والے نے کہا۔

’نہیں بالکل نہیں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میں اس وقت بھی مسکرارہا تھا۔ یہ دیکھیں ہاہاہا، میرا بچہ بھی قانون کا بے حد پابند ہے اور ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھتا ہے، میرے پیارے بچے ہنس کے دکھاؤ‘۔

’ہی ہی ہی‘، بچہ تکلیف کی شدت میں ہنسا اور بے ہوش ہوگیا۔

اس نوجوان نے دیکھا کہ اس کا پڑوسی ہنستے ہوئے بچے کو اٹھا کر وہاں سے بھاگ گیا۔ یہ منظر دیکھ کر نوجوان کا دل بھر آیا اور وہ رو پڑا، پولیس والا اپنی کتاب میں کچھ لکھنے لگا کہ اچانک اس کی نظر کھڑکی کی جانب اٹھی جہاں ایک نوجوان رو رہا تھا۔ پولیس والے کو اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہ آیا کہ بھلا اس شہر میں رو کون سکتا تھا۔ یہ تو قانون کی سراسر خلاف ورزی تھی۔ سو وہ دوڑ کر کھڑکی کے پاس آیا تو نوجوان ڈر کر پیچھے ہٹ گیا۔ پولیس والا زور زور سے دروازے پر دستک دینے لگا

’باہر نکلو تمہاری جرات کیسے ہوئی قانون کی خلاف ورزی کرنے کی، تمہیں اب سزا ملے گی، ہاہاہا‘۔

’غلطی ہوگئی جناب، غلطی ہوگئی‘، نوجوان نے ڈرتے ہوئے کہا۔

’کوئی غلطی نہیں ہوئی تم باہر نکلو تاکہ میں تمہیں جیل لے کر جاسکوں، تم پر اب مقدمہ چلے گا اور تمہیں قانون کے مطابق سزا ملے گی، ہاہاہا۔‘

’لیکن مجھے سزا سے ڈر لگتا ہے‘، نوجوان نے کہا۔

’سزا تو ملے گی، دروازہ کھولو، ہاہاہا‘۔

’نہیں مجھے معاف کردو، ذرا ٹھہرو میں ہنس دیتا ہوں مجھے خوشی کا کوئی واقعہ یاد کرلینے دو‘۔

’جلدی ہنسو‘، پولیس والے نے غصے سے کہا۔

’افسوس کہ مجھے کوئی واقعہ یاد نہیں آرہا دراصل میری زندگی بہت دکھی گزری ہے‘۔

’ہنسنے کا خوشی سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو قانون میں لکھا ہے، ہاہاہا‘۔

’آہ مجھے کچھ یاد نہیں آرہا‘، نوجوان رو پڑا۔

’تم سزا کے لیے تیار ہوجاؤ، ہاہاہا‘، پولیس والے نے کہا۔

اسی دوران کچھ اور پولیس والے بھی آگئے. انہوں نے وہاں موجود پولیس والے سے پوچھا کہ یہ کیا ہنگامہ ہے؟

’سر اس مکان میں ایک نوجوان اداس ہے، رو بھی رہا ہے، حتٰی کہ کوشش کے باوجود بھی نہیں مسکرا پاتا اور اس کے پاس اجازت نامہ بھی نہیں ہے‘۔

’اسے تو ضرور سزا ملے گی، آؤ ہنستے ہوئے دروازہ توڑ دیں‘۔

انہوں نے دروازہ توڑا اور اس نوجوان کو پکڑ کر جیل خانے لے گئے۔ دروازہ بند کرنے سے پہلے پولیس والے نے نوجوان سے کہا

’تمہارے پاس اب بھی وقت ہے۔ آخری بار پوچھ رہا ہوں کہ کیا تم مسکرا سکتے ہو؟ اگر تم مسکرا دو تو تمہاری سزا میں کمی کی جاسکتی ہے، لیکن اگر تم نے یونہی رونا جاری رکھا تو یہ قانون کی مکمل خلاف ورزی کے زمرے میں آئے گا اور تمہیں قید کردیا جائے گا۔ یہ دروازہ ایک بار بند ہوجائے تو پھر بہت مشکل سے کھلتا ہے، تم سے پہلے بھی اداس اور رونے والے لوگ اندر بند ہیں، تم غالباً شہر کے آخری اداس آدمی تھے اب سارا شہر مسکرائے گا، ہاہاہا‘۔

’ہنسو میرے ساتھ پاگل نوجوان‘۔

’میری زندگی بہت دکھی ہے مجھے کوئی ہنسی کا واقعہ یاد نہیں آرہا‘، نوجوان نے روتے ہوئے کہا۔

’پاگل، مسکراہٹ کا اب خوشی سے کوئی تعلق نہیں رہا، یہ قانون کا حصہ ہے۔ اندر چلے جاؤ بدنصیب نوجوان ہاہاہا‘

اور اس نے جیل کا دروازہ بند کردیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Ayesha Mar 13, 2019 07:13pm
Bohat Alaa..
یمین الاسلام زبیری Mar 14, 2019 06:22pm
جمیل اختر صاحب بہت اچھی تحریر ہے، چچا غالب یاد آگئے: دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
شہریار خاور Apr 25, 2019 02:58am
میری رائے میں جمیل صاحب سے بہتر علامتی اردو افسانہ کوئی نہیں لکھ سکتا. اس افسانے کے صرف الفاظ پڑھنا مصنف کے ساتھ بہت ہی عظیم زیادتی ہوگی. اس افسانے کی روح اس کے الفاظ پر بالکل اسی طرح حاوی ہے جیسے کہ خوشبو موتئے کے پھول کی نزاکت پر حاوی ہوتی ہے.