لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

2004ء میں جس طرح اٹل بہاری واجپائی میڈیا پنڈتوں کی تمام پیش گوئیوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے اچانک ناکام ہوئے تھے، اس کے مقابلے میں موجودہ حالات یعنی اپریل اور مئی میں ہونے والے بھارتی انتخابات میں حزبِ اختلاف وزیرِاعظم نریندر مودی کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں نظر آتی ہے۔ مگر اس کی ایک شرط ہے، اور وہ ہے حزبِ اختلاف کا اتحاد۔ ان دنوں اتحاد تو نظر آتا ہے لیکن یہ کبھی بنتا ہے تو کبھی بگڑتا ہے جبکہ افسوس کے ساتھ اس میں کانگریس کمزور ترین کڑی نظر آتی ہے۔

دوسرے لفظوں میں کہیں تو وزیرِاعظم کی جنگی سازبازی یا فوجی بہادری کا ڈھول پیٹنے والے چاہتے ہیں کہ دنیا انہیں ناقابلِ تسخیر سپر ہیرو تسلیم کریں، لیکن وہ ناقابلِ تسخیر ہیرو بالکل بھی نہیں ہیں۔ احمقانہ نفسیاتی آپریشن (psychological operations) یا پروپیگنڈوں کے علاوہ مودی کے پاس مفید سامان زیادہ کچھ نہیں۔

ایل کے ایڈوانی نے 2004ء میں اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’مائی کنٹری مائی لائف‘ لکھی جس میں واجپائی کی ایک ایسی شکست کی وجوہات کو بڑے ہی مفصل انداز میں بیان کیا، جس کا منہ پارٹی نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ایڈوانی نے واجپائی کی ناکامی کے چند عناصر کو درجہ بند کیا ہے، وہ عناصر موجود حالات سے بھی مطابقت رکھتے ہیں، بشرطیکہ حزبِ اختلاف سچ کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو۔

ایڈوانی کے مطابق وہ ایک قومی فیصلہ نہیں تھا بلکہ علاقائی سیاسی حقیقت کا مجموعی نتیجہ تھا۔ موجودہ حالات بھی ایسے ہی ہیں۔

اقتصادی اعتبار سے واجپائی نے مودی سے بہتر کارکردگی پیش کی تھی، مگر تب بھی وہ اقتدار کو واپس حاصل نہیں کرسکے تھے۔ ’’ترقی‘ اور ’بہتر گورننس‘ کے لیے ہمارے عزم اور لوگوں سے ہمارے وعدے کو ہماری کارکردگی کی بنیاد پر پرکھنے کے لیے کی گئی درخواست سے وہ قومی سطح کی مستحکم جذباتی ترغیب پیدا نہ ہوسکی جو مقامی یا ضمنی عناصر کا اثر ووٹرز تک منتقل کرتی۔‘

واجپائی نے اتر پردیش میں 80 میں سے 11 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ 2014ء میں مودی کو 70 فیصد سے زائد کامیابی دلوانے میں جو عنصر مددگار رہا وہ تھا گجرات طرز کی فرقہ وارانہ تقسیم تھا، یہی طریقہ انہوں نے مظفر نگر میں استعمال کیا تھا۔ حزبِ اختلاف ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ مایاوتی، اکھیلیش یادو اور کانگریس آپسی لڑائی جگھڑے میں مصروف تھے۔ اس رویے میں تبدیلی تو آئی ہے لیکن کانگریس کو اتحاد کے لیے اب بھی مزید کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔

جہاں تک بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی تنظیمی حقیقت کا تعلق ہے تو گزشتہ ہفتے ہی دنیا نے ایک برہمن رکن اسمبلی کو ایک نچلی ذات کے رکن اسمبلی کو جوتے سے پٹائی کرتے ہوئے دیکھا۔

اتر پردیش کے وزیراعلیٰ اور ان کے ڈپٹی کے مضبوط انتخابی قلعوں میں بھی نچلی ذات کے اتحاد کے ہاتھوں بی جے پی کے 2 اہم امیدواروں کی شکست نے بھی بی جے پی کی تنظیمی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان کھڑا کیا ہے۔ بہار میں مودی کی واراناسی میں چھٹی کا دن خراب کرنے کے لیے حزبِ اختلاف بی جے پی کے اہم رہنما شتروگن سنہا کو چُن سکتی ہیں۔

ایڈوانی شکست کی وجوہات میں سے ایک ان کی پارٹی کی ’انتظامی اتحاد میں ناکامی اور اس میں شامل کمزوریاں‘ کو بتاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے مطابق پارٹی کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ ’تامل ناڈو میں بی جے پی نے جلدبازی میں (آے آئی اے ڈی ایم کے) کے ساتھ اتحاد کیا جو ووٹرز کو متاثر نہیں کرسکا۔ جبکہ (ڈی ایم کے) اور اس کے اتحادیوں نے تامل ناڈو کی تمام 39 نشستیں جیت کر کلین سوئپ کامیابی حاصل کی۔ جھارکھنڈ، ہریانہ، جموں کشمیر اور آسام وہ ریاستیں تھیں جہاں ہمیں بہتر انداز میں اتحاد قائم نہ کرپانے کی وجہ سے کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اس کے برعکس کانگریس پارٹی کی انتخابی فتح کے پیچھے بڑی وجہ ان کی اتحاد سے متعلق حکمت عملی تھی۔‘

راہول گاندھی ممکن ہے کہ ایڈوانی کے منہ سے اپنی پارٹی کی ’اتحاد سے متعلق حکمت عملی‘ کی تعریف کو نوٹ کرنا چاہیں۔ پریشان بھارتی کانگریس کے صدر کو نہ جانے کتنی بار اتحاد یا موت کی وارننگ پر دھیان دینے کے لیے درخواستیں پیش کرچکے ہیں۔

ایک بار پھر ایڈوانی کی بات پر توجہ دیتے ہیں، ’کارکردگی کے فقدان اور کرپشن کی شکایات تو جائز ہوتی ہیں، لیکن (2004ء میں) ووٹروں اور پارٹی کارکنان کے پاس اس سے بڑھ کر ناراضگی کی وجہ اپنے منتخب کردہ نمائندگان کا تکبرانہ رویہ تھا۔‘

گھمنڈ۔ مدھیہ پردیش میں اتحاد سے دلت مایاوتی کو خارج کرنے کا غرور، دہلی میں تنہا اقتدار قائم رکھنے کی دھمکی دینے کا گھمنڈ، ممتا بینرجی اور اروند کیجریوال کا مذاق اڑانے کا تکبر مودی کے لیے اقتدار میں واپسی کی راہیں بہت ہی تنگ کرسکتا ہے۔

اندرا گاندھی سے ہی سیکھیے۔ انہوں نے کیریلا میں ایک دن کے اندر اندر کمیونسٹ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا لیکن 1960ء کی دہائی میں اندرا گاندھی نے معاشرے کو خود سے ہی امن و سکون کا گہوارہ بنانے کے لیے ان کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما۔ ہندوستان میں بے تحاشہ غربت اور بڑھتی بے روزگاری کے سبب بھارت کا فطری جھکاؤ بائیں بازو کی طرف رہا ہے۔

راہول گاندھی کی عوامی جلسوں میں کی جانے والی تقریروں کو سنا جائے تو اس بات پر بازی لگانا مشکل نہیں کہ وہ ایک مہذب وزیرِاعظم بن سکتے ہیں۔ وہ مسائل سے آگاہی رکھتے ہیں اور زہریلی زبان استعمال کرنے کے بجائے دیگر لوگوں کے دکھوں اور تکلیفوں کو سمجھتے ہوئے اپنی بات کرتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں سیکیورٹی پر وہ کافی خائف نظر آئے۔ وہ حزبِ اختلاف کو اپنے پیچھے کھڑا کرکے فوج کو دہشتگردی سے لڑنے کے لیے اکسانے سے متعلق مودی کی سوچ پر سوال اٹھا سکتے تھے، جو ماضی میں کانگریس نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے کبھی ایسا نہیں کیا، مگر اس کے بجائے راہول ’قومپرستی‘ کے آگے ہار بیٹھے اور وہ مودی چالاکی سے بازی لے گئے جنہوں نے ہندوستان کی غلط ترجیحات کی بنیاد رکھی۔

جہاں کانگریس بھلے ہی گائے کے پیشاب پر سیاست کر رہی ہو اور اپنی پیشانی پر سندور لگا رہی ہو مگر وہیں راہول ایک نیک نیت شخص کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ وہ کسی برادری پر لعن طعن نہیں کرتے، جو ہمارے اس موجودہ پستی والے دور میں ایک زبردست اثاثے سے کم نہیں ہے۔ لوگ ان کی یونیورسٹی ڈگری پر بھی ایک نگاہ ڈال سکتے ہیں۔ وہ موت کی سزا کے خلاف ہیں جس کا اندازہ اپنے والد کے قاتلوں کو پھانسی پر چڑھانے کے خلاف مہم سے لگایا جاسکتا ہے۔

اقتصادی اعتبار سے من موہن سنگھ کی تجویز ان کی دسترس میں ہے۔ لیکن ایک مشکل بھی حائل ہے جسے بے محل خواہش کہتے ہیں۔ کچھ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ راہول کے ارد گرد بیٹھے مشیر جن کے ان بڑی اور طاقتور شخصیات سے براہِ راست روابط ہیں جنہوں نے مودی کو اقتدار میں لانے کے لیے مدد فراہم کی تھی، وہ انہیں ایک قدم اور جانے کے لیے اکسا رہے ہیں۔

رافیل کرپشن ویسے تو بہت بڑا معاملہ ہے لیکن اس موقعے پر یہ اصل مقصد سے توجہ ہٹانے کا کام کرسکتا ہے۔ دی ہندو اور دیگر کی جانب سے کیے جانے والے انکشافات بہت ہی قابلِ تعریف ہیں مگر رافیل کرپشن معاملہ حزب اختلاف کو 2 اضافی ووٹ نہیں دلوائے گا کیونکہ شہری ووٹ مکمل طور پر فرقہ وارانہ طور پر تقسیم کا شکار ہے۔

راجیو گاندھی کی شکست بوفورز کرپشن کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی کہ جس میں ان کے ارد گرد بیٹھے لوگوں کا ہاتھ تھا۔ ان کی ناکامی کی وجہ ہندوؤں اور مسلمانوں سے بُرے برتاؤ کے باعث ہندوستانیوں کے سماجی توازن سے کی جانے والی چھیڑ چھاڑ تھی، وہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کی حمایت کھو چکے تھے۔

یہ بھی یاد رکھیے کہ راجیو تب بھی سادہ اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوئے اور انہیں حکومت تشکیل دینے کی دعوت بھی دی گئی، جسے قبل کرنے سے انہوں نے انکار کردیا تھا۔ کیا کوئی یہ مانتا ہے کہ مودی اکثریت کے بغیر بطور سادہ اکثریت والی پارٹی کے سربراہ سخت جمہوری اقدار کی پاسداری کرنا چاہیں گے؟

لہٰذا رافیل کو بھول جائیے اور ابھی خصوصی طور پر جمہوریت کو بچانے کے لیے اتحاد بنانے پر دھیان دیجیے۔ اگر اس کے لیے مایاوتی، ممتا بینرجی یا پھر چندبابو نائڈو کے راستے سے ہٹ جانا پڑے جو ہٹ جائیے۔ صرف ایک مضبوط حزبِ اختلاف کی جیت ہی دیگر جرائم کے ساتھ رافیل کرپشن کرنے والوں کو سزا دے سکتی ہے۔


یہ مضمون 12 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں