آغا سراج کے گھر چھاپہ: ’چیئرمین نیب تحقیقات کریں ورنہ ہم ایکشن لیں گے‘

اپ ڈیٹ 13 مارچ 2019
چیئرمین نیب اپنے ماتحت افسران کا احتساب کریں،بلاول بھٹو — فوٹو: ڈان نیوز
چیئرمین نیب اپنے ماتحت افسران کا احتساب کریں،بلاول بھٹو — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرادری کا کہنا ہے کہ چیئرمین نیب آغا سراج کےگھرپرچھاپہ کی تحقیقات کریں ورنہ ہمیں تحقیقات کرنا پڑے گی۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ چیئرمین نیب نے آغاسراج درانی کےگھر پر چھاپے کےخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔

انہوں نے کہا کہ آغا سراج درانی کی گرفتاری کے بعد شواہد کے لیے ان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا اس پر چیئرمین نیب اپنے ماتحت افسران کا احتساب کریں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اظہار یکجہتی کا پیغام دینے کے لیے سندھ اسمبلی آیا ہوں۔

مزید پڑھیں: نواز شریف اپنے اصولوں پر قائم ہیں، ڈیل کا تاثر نظر نہیں آتا، بلاول بھٹو زرداری

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ جیسا کہ پورے پاکستان کو پتہ ہے کہ سندھ اسمبلی وہ اسمبلی ہے جس نے پاکستان کی قرارداد پاس کی،اس وقت کی اسمبلی میں بھی آغا سراج درانی کے رشتے دار موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر سندھ اسمبلی پیپلزپارٹی کا عہدہ نہیں ہے، یہ ایک ایک آئینی عہدہ ہے جسے ایوان کے اراکین کی جانب سے منتخب کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آغا سراج درانی پاکستان کا ایک بڑا سیاسی نام ہیں، ان کے والد بھی سندھ اسمبلی کے اسپیکر رہ چکے ہیں،اسپیکر کا عہدہ اہم ہے۔

’وزیراعظم عمران خان مودی اور کالعدم تنظیموں کے خلاف ایک لفظ نہیں بولتے‘

چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ ہم جمہوریت پسند جماعت ہیں،ترقی پسند ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میں جب سے سیاست میں ہوں دہشت گردوں کے خلاف، کالعدم تنظیموں کے خلاف آواز اٹھارہا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کے خلاف تو بولتے ہیں لیکن نریندر مودی اور کالعدم تنظیموں کے خلاف ایک لفظ نہیں بولتے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت، اپوزیشن کو کیسے آمادہ کرے گی کہ وہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے یا کالعدم تنظیموں کے خلاف قدم اٹھائیں گے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ الیکشن میں آپ کے اتحادی تھے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی صرف اور صرف پی ٹی آئی کی مدد کرنےکے لیے کی گئی الیکشن میں جہاں کالعدم تنظیموں کو ری بین کرکے انہیں الیکشن میں لایا گیا تاکہ پی ٹی آئی کو سپورٹ ملے۔

یہ بھی پڑھیں: 'جعلی اکاؤنٹ کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کو فیصلہ سمجھ لیا گیا ہے'

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے لیے احتساب موجود ہے،حکومت کا جو بھی ناقد ہے چاہے وہ سیاستدان ہو یا چھوٹا سا بلاگر ہو اس کے خلاف اقدامات کیے جاتے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم کیا پیغام دے رہے ہیں دنیا کو کہ کالعدم تنظیموں کے لیے این آر او، استثنیٰ، کالعدم تنظیموں کے لیے عدالت میں کوئی تاریخ نہیں ملتی، ان کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں آتا۔

انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ 3 بار کے وزیراعظم کوٹ لکھپت جیل میں ہیں بیمار ہیں لیکن کالعدم تنظیموں کے لوگوں کو گرفتار نہیں کرواسکتے۔

چیئرمین پی پی نے کہا کہ اسپیکر سندھ اسمبلی کو آمدن سے زائد اثاثوں کے جھوٹے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے لیکن کالعدم تنظیموں کو آمدن سے زائد اثاثوں پر گرفتار نہیں کرواسکتے، ان کے اثاثے کہاں سے آتے ہیں اس پر جے آئی ٹی بٹھائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بہت مشکل سوال ہے اس کا جواب آنا چاہیے،اس لیے ہم کالعدم تنظیموں کا مقابلہ کسی دباؤ کی وجہ سے نہیں کررہے بلکہ دہشت گردی کی وجہ سے کررہے ہیں،کسی انڈیا کی دھمکی کی وجہ سے نہیں کررہے،کسی امریکا یا جرمن کی فون کال کی دھمکی کی وجہ سے نہیں کررہے ہم جدوجہد کررہے ہیں دہشت گردی کے خلاف اور کب سے کررہےہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کل بھی ہمارا مطالبہ تھا اور آج بھی ہمارا مطالبہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرو، پاکستان کو بچاؤ۔

انہوں نے کہا کہ لازمی طور پر حکومت کی نیت پر شک ہوگا ہمارے وزیراعظم اپوزیشن کے خلاف بات کرسکتے ہیں، ایکشن لے سکتے ہیں مگر کالعدم تنظیموں اور مودی کے خلاف کچھ نہیں بول سکتے،کوئی ایکشن نہیں لے سکتے، بس اپوزیشن اس کی نظر میں ہے۔

چیئرمین پی پی نے کہا کہ آپ نے ملک کا وزیراعظم بننا ہے، ملک کے مخالفین کا مقابلہ کرنا ہے،صرف ذاتی یا سیاسی مخالفین کا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ الیکشن کے دوران ملی مسلم لیگ کا کردار آپ کے سامنے ہے،الیکشن کے دوران بہت سی تنظیمیں تھیں جنہیں قومی دھارےمیں شامل کرنے کے نام پر صرف اس لیے سامنے لایا گیا تاکہ پی ٹی آئی کو فائدہ ہو‘ ۔

مزید پڑھیں: جے آئی ٹی کی زرداری، اومنی گروپ کے اثاثے منجمد کرنے کی درخواست

بلاول بھٹو نے کہا کہ’ ایچ یو ایم (حرکت المجاہدین الاسلامی) جو اقوام متحدہ کی جانب سے کالعدم قرار دی جانے والے تنظیم ہے، جو پاکستان میں کالعدم ہے، اس کے رہنما اسد عمر کے ہمراہ الیکشن کے دوران میڈیا کے سامنے آتے ہیں،وہ پی ٹی آئی میں شامل ہونے اور اس کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں تو پھر ہم کیسے قبول کریں کہ آج آپ کالعدم تنظیموں کے خلاف ایکشن لیں گے ‘۔

چیرمین پی پی نے کہا کہ ہم صرف تب قبول کرسکتے ہیں جب آپ اعتماد میں لینے والے اقدامات دکھائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میرا پرانا مطالبہ ہے جسے میں آج دہرارہا ہوں کہ ہماری مشترکہ پارلیمنٹری نیشنل سیکیورٹی کمیٹی بنائی جائے جو ہماری قومی سیکیورٹی پالیسی کی نگرانی کرے اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کاجائزہ لے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ پی ٹی آئی کو ماضی میں کالعدم اور دہشت گردوں تنظیموں کی حمایت میں دیے گئے بیانات اور اقدامات سے فاصلہ رکھنے کی ضرورت ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ انہیں ایک لکیر کھینچنے کی ضرورت ہے کہ وہ پرانی پی ٹی آئی تھی اور اب نئی پی ٹی آئی بن گئی ہے‘۔

چیئرمین پی پی نے کہا کہ ’ کم از کم 3 وزرا ایسے ہیں تاریخ اور ریکارڈ کے مطابق ان کا ماضی میں کالعدم تنظیموں سے تعلق نکلتا ہے‘۔

بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ’ ان میں سے ایک وزیر نے انتخابی مہم کے دوران کالعدم تنظیم سے ملاقات کی اور آج بھی یہ مانتے ہیں کہ اگر آپ کالعدم تنظیموں کے خلاف بات کرتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف بات کرتے ہیں، اگر آپ مطالبہ کرتے ہیں جن تنظیموں نے بلوچستان سے لے کر اس ملک کی بے گناہ عورتوں اور اس ملک کے بے گناہ بچوں کو قتل کیا ہے تو ان کے خلاف ایکشن لیں‘۔

انہوں نے کہا کہ اس قسم کی ذہنیت اگر کابینہ میں ہے تو ہم نہیں مان سکتے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہورہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس کا سیاستدانوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے فیصلے پر نظرثانی کا حکم

چیئرمین پی پی نے کہا کہ ’ دوسرا ایک وزیر بھی موجود ہے جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر کئی مرتبہ وائرل ہوئی ہے جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ جب تک تحریک انصاف کی حکومت ہوگی تب تک ایک مخصوص کالعدم تنظیم کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوگا‘۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ ایک اور وزیر بھی ہیں جو ہر سلیکٹڈ حکومت میں وزیر بن جاتے ہیں، ایک خاص اور غیر جمہوری ذہنیت کے ماؤتھ پیس ہیں اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں، جن کے بیان موجود ہیں نہ صرف ماضی میں کالعدم تنظیموں کی ریلی میں شرکت کی بلکہ ان کے خلاف کالعدم تنظیموں کے ٹریننگ کیمپوں میں شمولیت کا ریکارڈ بھی موجود ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ان افراد کو لازمی طور پر عمران خان کی کابینہ سے برطرف کیا جائے تاکہ اپوزیشن مانے کہ حکومت واقعی کالعدم تنظیموں کے خلاف ایکشن لینا چاہتی ہے۔

چیئرمین پی پی نے کہا کہ ہم جمہوری نظام میں ہیں جس میں اپوزیشن کا کردار ادا کررہا ہوں، میرا یہ فرض ہے کہ میں حکومت کا احتساب کروں،اپوزیشن کے خلاف ان کے حملوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو بے نقاب کروں۔

’آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام کسی پر بھی لگ سکتا ہے‘

بلاول بھٹو نے آغا سراج درانی کی گرفتاری سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر ایک افسوسناک اور شرمناک حملہ کیا گیا جب مشرف کے بنائے ہوئے ادارے نے آغا سراج درانی کو اسلام آباد سے گرفتار کیا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اسلام آباد سے آغا سراج درانی کی گرفتاری شرمناک عمل ہے، قابل مذمت ہے اور میں اس کی مذمت کرتاہوں۔

چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ نیب کا آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام ویسا ہی ہے جیسے کوئی پولیس آفیسر کسی بےگناہ شخص کو پکڑے اور اس پر کوئی چرس ڈال دیں اور 2 بوتل شراب کا الزام ڈال کر اسے اندر بند کردے۔

انہوں نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام کسی پر بھی لگ سکتا ہے اور یہاں ہر پاکستانی کے لیے ایک قانون نہیں ہے، اسپیکر سندھ اسمبلی کو صرف الزام کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا اگر ثبوت ہوتا تو وہ پیش کرتے۔

مزید پڑھیں: بلاول بھٹو انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین منتخب

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ گرفتاری کے بعد آغا سراج درانی کے گھر پر چھاپہ مارنا یہی پیغام دیتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں تھا اور ثبوت ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی۔

چیئرمین پی پی نے کہا کہ پھر جس طریقے سے چادر اور چاردیواری کو پامال کیا گیا یہ ہم برداشت نہیں کریں گے، یہ ہماری ثقافت،مذہب اور انسانی حقوق کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے عورتوں اور بچوں کو یرغمال بنایا گیا، بدتمیزی کی گئی اس پر پاکستان پیپلزپارٹی نے مذمت کی وزیراعلیٰ سندھ نے بھی مذمت کی۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ چیئرمین نیب نے آج تک انسانی حقوق کی اس سنگین خلاف ورزی پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔

انہوں نے کہا کہ میں ایک مرتبہ پھر مطالبہ کرتا ہوں کہ چیئرمین نیب اپنے ماتحت افسران کا احتساب کریں ورنہ ہمیں اس کی تحقیقات کرنی پڑے گی،ہمیں ایکشن لینا پڑے گا۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ نیب کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے،میں جانتا ہوں کہ یہ کالا قانون ہے۔

’فرشتے کو بھی چیئرمین نیب بنادیں تو تب بھی سیاسی انتقام ہی ہوگا‘

ان کا کہنا تھا کہ اسی لیےشہید بینظیر بھٹو نے اپنے چارٹرڈ آف ڈیموکریسی میں، اپنے منشور میں کہا تھا کہ ہمیں نیب کو ختم کرنا ہے یہ ہماری بھی ناکامی ہے کہ ہم نیب میں کوئی اصلاحات یا اس مشن کو پورا نہیں کرسکے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ نیب ایک ایسا ادارہ ہے کہ اگر اس میں آپ فرشتہ بھی چیئرمین نیب بنادیں تو تب بھی سیاسی انتقام ہی ہوگا کچھ اور نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بہت افسوسناک بات ہے کہ کچھ اداروں میں آج بھی 2019 میں سیاسی انتقام چل رہا ہے۔

چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ آپ یہ ہمارا بےنامی اکاؤنٹس کیس ہے اس کو ہی دیکھ لیں یہ سیاسی انتقام ہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کے دوران اس قسم کے کیس پر سوموٹو لینا، تفتیش کے معاملے پر سوموٹو نہیں لیا جاسکتا یہ انسانی حقوق کا کیس نہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اس کیس میں ایف آئی آر کاٹی گئی، ابتدائی رپورٹ پیش کی گئی بینکنگ کورٹ میں کیس چل رہا ہے ،کیسے کہا جاسکتا ہے کہ یہ کیس سست روی کا شکار ہے۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ اگر یہ کیس سست روی کا شکار ہے تو کیا شہید ذوالفقار علی بھٹو کا قتل کیس،شہید بینظیر بھٹو کا قتل کیس، اصغر خان کیس سست روی کا شکار نہیں ہے؟

چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ مگر یہ اچانک الیکشن کے دوران جب میں نے گھوٹکی میں پریس کانفرنس کی اس کے جواب میں کیس کی سست روی کو انسانی حقوق کا کیس بنادیا جاتا ہے اور سوموٹو بھی لیا جاتا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ تاریخ کی بدترین دھاندلی،انسانی حقوق کی پامالی،آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کو ختم کرنا کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔

انہوں نے کہا کہ توازن لانا کوئی عدالت کا قانون نہیں ہے، آپ عدالت میں نہیں کہہ سکتے کہ میں نے توازن لانا ہے میں نے جے آئی ٹی بنانی ہے، اس سے بہت بُرا پیغام جاتا ہے۔

چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی کو بٹھانا ایک غیرجمہوری عمل ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ غلط فیصلہ تھا لیکن یہ ہوگیا۔

’چیف جسٹس نے کہا بلاول بے گناہ ہے مگر تحریری فیصلے سے یہ بات نکال دی گئی‘

انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ اور مجھے آرٹیکل 10 اے کے مطابق شفاف اور آزاد ٹرائل کا حق حاصل ہے، اس حق کو سلب کیا گیا۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ مسلسل 6 ماہ تک ہماری کردار کشی کی گئی، مختلف فورمز کے سامنے ہمارے بارے میں بات کی گئی لیکن ایک بار بھی کسی عدالت نے مجھے یا وزیراعلیٰ کو پیش ہونے کے لیے کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے تو انصاف نہیں ہوسکتا کہ آپ کسی ملزم یا کسی گواہ کو سنے بغیر ان کے خلاف یا ان کے حق میں بھی فیصلہ سنادے۔

یہ بھی پڑھیں: بلاول بھٹو، مراد علی شاہ کا نام جے آئی ٹی رپورٹ اور ای سی ایل سے نکالنے کا حکم

انہوں نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس کو راولپنڈی منتقل کرنا حدود کے تصور کی خلاف ورزری ہے ،قانونی طور پر جہاں جرم کیا گیا ، جہاں ملزم ہے وہاں ٹرائل ہوگا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ میرا مطلب ہے کہ اگر کیس سندھ کا، ایف آئی آر سندھ کی، بینک اکاؤنٹس سندھ کے،کمپنی سندھ کی،ملزم سندھ کے، ٹرانزیکشن سندھ کی لیکن کیس راولپنڈی کیوں منتقل کیا جارہا ہے؟ راولپنڈی میں ایسا کیا ہے پتہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ کیسے ناانصافی ہورہی ہے،سیاسی انتقام کے لیے مجھے اس کیس میں گھسیٹا جارہا ہے۔

چیئرمین پی پی نے کہا کہ اوپن کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان، آئی ایس آئی کے رہنما کو طلب کرتے ہیں ان سے پوچھتے ہیں کہ کس کے کہنے پر بلاول بھٹو کا نام جے آئی ٹی کا نام شامل کیا،اس سوال کا جواب مجھے آج تک نہیں ملا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اسی سماعت میں پورے پاکستان کے سامنے چیف جسٹس نے اپنا حکم سنایا، انہوں نے کہا تھا کہ بلاول بھٹو بے گناہ ہے ان کا نام جے آئی ٹی سے اور ای سی ایل سے نکالا جائے لیکن افسوس ہے کہ تحریری حکم نامے میں یہ جملے ہی نہیں تھے، شاید تحریری حکم نامہ کسی اور نے لکھا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پھر یہ کہا گیا کہ آپ نے غلط سمجھا، اس پر کوئی وضاحت نہیں کی گئی، میں سپریم کورٹ سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے ریکارڈ کو ایک مرتبہ پھر دیکھ لیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں