پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں جس مقابلے کا سب سے زیادہ انتظار کیا جاتا ہے وہ کراچی-لاہور کا میچ ہوتا ہے۔ دونوں ٹیموں کی فین فالووِنگ جتنی زیادہ ہے، کارکردگی اتنی ہی ’ماٹھی‘ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کا پلے آف میں کبھی مقابلہ نہیں ہوا بلکہ قلندرز بیچارے تو کبھی اگلے مرحلے تک پہنچے ہی نہیں، جبکہ بزعمِ خود ’کنگز‘ بھی پلے آف مرحلے میں ہمیشہ پہلے ہی مقابلے میں شکست کھا کر باہر ہوئے۔

شاہوں اور قلندروں کے برعکس جس نے ثابت کیا ہے کہ کھیل میں رقابت کیا چیز ہوتی ہے؟ وہ پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز ہیں۔ پہلے سیزن سے اب تک ان دونوں کے مابین ہمیشہ جاندار مقابلے دیکھنے کو ملے ہیں بلکہ ہر سال پلے آف میں ہونے والا ٹکراؤ تو سنسنی خیزی کی تمام حدیں توڑ دیتا ہے۔

کراچی میں ہونے والے پی ایس ایل 4 کے پہلے کوالیفائر میں بھی ایسا ہی مقابلہ ہوا کہ جس میں کوئٹہ نے 10 رنز سے کامیابی حاصل کرکے ایک مرتبہ پھر فائنل تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ یہ چار سیزنز میں تیسرا موقع ہے کہ کوئٹہ فائنل تک پہنچا ہے، لیکن بدقسمتی دیکھیں کہ آج تک ٹائٹل نہیں جیت پایا۔ اس کی وجوہات اپنی جگہ لیکن جو بات سب سے دلچسپ ہے وہ یہ کہ پچھلے 3 سیزنز میں دونوں ٹیمیں پلے آف مرحلے میں جب بھی آمنے سامنے آئی ہیں، مقابلے کا فیصلہ صرف 1 رن سے ہوا ہے۔ گزشتہ شب بھی کچھ ایسا ہی ہونے جا رہا تھا، بس پشاور زلمی کی راہ میں شین واٹسن حائل ہوگئے۔

2016ء اور 2017ء میں بھی پہلے مرحلے کے اختتام پر پشاور زلمی پوائنٹس ٹیبل پر نمبر 1 تھا جبکہ کوئٹہ دوسرے نمبر پر آیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ٹیمیں کوالیفائر 1 میں مقابل آئیں کہ جہاں جیتنے والا براہِ راست فائنل تک رسائی حاصل کرتا ہے جبکہ شکست خوردہ کو ایک مزید 'موقع' ملتا ہے کہ وہ کوالیفائر 2 کے فاتح کے ساتھ کھیلے اور جیت کر فائنل میں جگہ پائے۔

—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئیٹر
—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئیٹر

—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئیٹر
—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئیٹر

پی ایس ایل کے پہلے سیزن میں ہونے والا پشاور-کوئٹہ کوالیفائر ایک بہت یادگار مقابلہ تھا، ایک 'لو-اسکورنگ تھرلر' کہ جس میں کوئٹہ نے صرف 133 رنز کا دفاع کیا تھا اور محض 1 رن سے کامیابی حاصل کی تھی۔ یہی نہیں بلکہ اگلے سال یعنی 2017ء میں بھی یہی دونوں ٹیمیں مقابل آئیں۔ اس مرتبہ رنز تو خوب بنے، لیکن فیصلہ وہی 1 رن پر ہوا۔ کوئٹہ کے 200 رنز کے جواب میں پشاور زلمی نے آخری زور بھی لگا لیا لیکن جیت نہیں پایا۔ نتیجتاً کوئٹہ فائنل تک پہنچ گیا، جہاں اس کا مقابلہ ایک مرتبہ پھر پشاورسے ہی ہوا اور یہاں کامیابی کوئٹہ کو نہیں ملی جس کی وجہ سادہ سی تھی، فائنل لاہور میں کھیلا گیا تھا اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے تمام اہم غیر ملکی کھلاڑیوں نے پاکستان آنے سے انکار کردیا تھا جبکہ پشاور کی 'فرسٹ الیون' موجود تھی، اپنے تمام اسٹار پلیئرز کے ساتھ۔ ایسا نہ ہوتا تو شاید آج تاریخ کچھ مختلف ہوتی۔

بہرحال، پچھلے سال یعنی 2018ء میں پلے آف میں پشاور اور کوئٹہ کا ٹکراؤ ایلی منیٹر میں ہوا کیونکہ دونوں پوائنٹس ٹیبل پر تیسرے اور چوتھے نمبر پر آئے تھے۔ اس مرتبہ بھی کیون پیٹرسن اور شین واٹسن سمیت کوئٹہ کے اہم کھلاڑی پاکستان نہیں آئے لیکن مقابلہ پھر بھی بہت جاندار ہوا کہ جس میں انور علی کی دھواں دار بیٹنگ کی وجہ سے کوئٹہ جیت کے بالکل قریب پہنچ گیا۔ بس آخری گیند پر حتمی وار نہ لگ سکا اور پشاور صرف 1 رن سے جیت کر فائنل میں پہنچ گیا۔

شائقین کے کرکٹ جذبات سے کھیلنے والے ان لمحات کو دیکھنے کے بعد ویسے ہی لگتا تھا کہ اس بار بھی پشاور-کوئٹہ میں سخت معرکہ آرائی ہوگی۔ اب تو کوئٹہ بھی اپنی پوری طاقت کے ساتھ ٹورنامنٹ میں موجود ہے۔ مشہورِ زمانہ آل راؤنڈر شین واٹسن بھی ٹیم کے ساتھ ہیں اور یہ ان کی کارکردگی ہی تھی کہ جس کی بدولت کوئٹہ نے ایک مرتبہ پھر فائنل تک رسائی حاصل کی ہے۔

میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پانے والے شین واٹسن—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئیٹر
میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پانے والے شین واٹسن—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئیٹر

کوئٹہ کو بلّے بازی کی دعوت ملی تو یہ شین واٹسن ہی تھے کہ جنہوں نے صرف 43 گیندوں پر 71 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔ 6 چھکوں سے مزیّن اس اننگز کی بدولت کوئٹہ 186 رنز تک پہنچ گیا۔ جواب میں پشاور کا آغاز اچھا نہیں تھا بلکہ ایک مرحلے پر تو لگتا تھا کہ اب میچ یکطرفہ ہوگیا ہے، جب صرف 90 رنز پر پشاور کے 5 کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔

اس موقع پر کریز پر کیرون پولارڈ اور کپتان ڈیرن سیمی کی صورت میں ویسٹ انڈین جوڑی موجود تھی اور دونوں نے کمال ہی کردیا۔ صرف 6 اوورز میں دونوں نے 83 رنز کا اضافہ کیا، لگتا تھا کہ کوئی طاقت پولارڈ اور سیمی کو روک نہیں سکتی۔ کوئٹہ کی پریشانی یہ تھی کہ اس کے ایک اہم باؤلر فواد احمد کیچ پکڑنے کی کوشش میں شدید زخمی ہوگئے تھے اور اب وہ ایک باؤلر کی کمی محسوس کر رہا تھا۔ جب 19 اوورز ہوگئے تو آخری اوور پھینکنے والا کوئی باؤلر نہیں بچا تھا۔ یہاں پر گیند واٹسن کو پکڑائی گئی کہ جو عرصہ دراز سے باؤلنگ چھوڑ چکے ہیں۔

ایسے موقع پر کہ جب پولارڈ اور سیمی دھواں دار بیٹنگ کر رہے تھے، آؤٹ آف فارم باؤلر کو گیند پکڑانا گویا قصائی کے سامنے بکرا پھینکنے والی بات ہے۔ پھر جب دوسری ہی گیند کو پولارڈ نے آسمان کی سیر کرائی اور باؤنڈری لائن سے باہر پھینک دی تو لگتا تھا کہ مقابلہ کوئٹہ کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ لیکن واٹسن نے اگلی گیند پر پولارڈ کو کلین بولڈ کردیا اور مقابلہ پشاور کے ہاتھوں سے نکل گیا کیونکہ بالکل اگلی ہی گیند پر بائے کا رن لینے کی کوشش میں سیمی بھی رن آؤٹ ہوگئے۔ کوئٹہ نے 10 رنز سے کامیابی حاصل کی اور گویا پچھلے سال کا بدلہ چکا دیا۔ یہ وہ دن تھا کہ شاید واٹسن مٹی کو بھی چھوتے تو سونا بن جاتی۔

اس مقابلے نے جہاں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی اعصابی طاقت کو ظاہر کیا ہے، وہیں فائنل سے قبل حوصلوں کو بھی آسمان پر پہنچا دیا ہے۔

—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئیٹر
—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئیٹر

—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئیٹر
—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئیٹر

دوسری جانب پشاور کے لیے یہ شکست کسی دھچکے سے کم نہیں ہوگی۔ اس ناکامی میں بڑا کردار ان کے اپنے فیصلوں کا ہے جیسا کہ ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کرنے کا فیصلہ۔ کراچی میں کھیلے گئے اب تک زیادہ تر مقابلوں میں پہلے کھیلنے والی ٹیم نے کامیابی حاصل کی ہے اور پشاور کی باؤلنگ بھی بہت اچھی ہے، اسے تو اپنے باؤلرز پر اعتماد کرتے ہوئے پہلے خود بیٹنگ کرنی چاہیے تھی تاکہ ہدف کے تعاقب کے دباؤ سے آزاد رہتا۔

بہرحال، مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا۔ پھر بھی حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ پشاور کے کئی کھلاڑی بہت عمدہ کارکردگی پیش کر رہے ہیں جیسا کہ ٹمل ملز کی طوفانی رفتار کی گیندیں اور کیرون پولارڈ کی دھواں دار بیٹنگ۔ چند کمزور کڑیاں ضرور ہیں لیکن اب بھی فائنل کھیلنے کا موقع ہاتھ سے نکلا نہیں۔ ایلی منیٹر میں کراچی-اسلام آباد مقابلے کے فاتح کا سامنا کرنا ہوگا کہ جہاں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں