بلیو ایریا فائرنگ کیس: ملزم سکندر کی سزا کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ

اپ ڈیٹ 14 مارچ 2019
ملزم نے اگست 2013 میں اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت کے بلو ایریا میں ہوائی فائرنگ کی تھی — فائل فوٹو
ملزم نے اگست 2013 میں اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت کے بلو ایریا میں ہوائی فائرنگ کی تھی — فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کے بلو ایریا میں فائرنگ کیس کے ملزم محمد سکندر کی سزا کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے ملزم محمد سکندر کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے وفاقی دارالحکومت کے علاقے بلیو ایریا میں فائرنگ کرکے علاقے کو یرغمال بنانے والے ملزم سکندر کو 16 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

عدالت نے ملزم سکندر پر ایک لاکھ 10 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا تھا جبکہ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں ملزم کو مزید 6 ماہ قید کا سامنا کرنا تھا۔

مزید پڑھیں: بلیو ایریا فائرنگ کیس: ملزم سکندر کو 16 سال قید کی سزا

دوسری جانب کیس میں نامزد سکندر کی بیوی کنول کو عدالت نے باعزت بری کردیا تھا۔

یاد رہے کہ اگست 2013 میں دارالحکومت اسلام آباد میں حکومت سے نالاں اسلحے سے لیس ایک عام شہری نے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہوئے ہوائی فائرنگ کی تھی جس سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔

تقریباً 5 گھنٹے تک جاری رہنے والی اس کارروائی کے دوران متعدد مرتبہ سینئر پولیس افسران نے ملزم سکندر سے مذاکرات کرنے کی کوششیں کی تاہم وہ کامیاب نہیں ہوسکے اور اس دوران وہ اپنے اہلیہ کے ذریعے بھی حکام تک اپنے مطالبات تحریری طور پر پہنچاتا رہا۔

ملزم سکندر نے ہتھیاروں کے ساتھ شام ساڑھے 5 بجے سے رات کے 11 بجے تک جناح ایونیو کے علاقے میں کوف و ہراس پھیلایا تھا، جہاں قریب ہی مصروف تجارتی علاقہ ہے اور اس سڑک کے اختتام پر ایوان صدر اور پارلیمنٹ ہاؤس واقع ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سکندر کو زندہ پکڑنے کیلیے آپریشن میں دیر کی، نثار

بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما زمرد خان کی مدد سے موقع پر موجود سیکیورٹی اہلکار نے ملزم سکندر پر قابو پالیا تھا لیکن وہ سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے شدید زخمی ہوگیا تھا۔

سرکاری ٹی وی چینل پاکستان ٹیلی ویژن کے مطابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے پولیس اور انتظامیہ کو یہ ہدایت کی تھی کہ مسلح شخص کو ہر صورت زندہ گرفتار کرنے کی کوشش کی جائے۔

واقعے میں سکندر کی بیوی کنول اور اس کے بچے محفوظ رہے تھے جبکہ اس کی سیاہ رنگ کی گاڑی کو پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

واقعے کے بعد ملزم سکندر کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

سکندر وکیل نے عدالت میں موقف اپنایا کہ وہ اسلام آباد میں دہشت پھیلانے کے بجائے اپنے بچوں کے ہمراہ پکنک منانے آئے تھے۔

دوسری جانب استغاثہ کا کہنا تھا کہ سکندر نے اسلحہ دکھا کر عوام میں خوف و ہراس پھیلایا اور جناح ایوینیو میں نظام زندگی کو مفلوج بنائے رکھا تھا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 14 مارچ 2019 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں