بحرالکاحل کے جزیرہ نماملک نیوزی لینڈ کے تیسرے بڑے شہر کرائسٹ چرچ کی 2 مساجد میں 15 مارچ کو ہونے والے دہشت گرد حملوں کو اب تک دنیا بھر میں مساجد پر ہونے والے حملوں میں سب سے بڑا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔

اگرچہ جنگ زدہ اسلامی ممالک میں ان سے زیادہ خطرناک حملے بھی مساجد میں ہو چکے ہیں، تاہم یورپ، امریکا اور دیگر غیر مسلم ممالک میں واضح طور پر دہشت گردی کا یہ واقعہ اب تک کا مساجد پر ہونے والا سب سے بڑا حملہ مانا جا رہا ہے۔

نیوزی لینڈ پولیس کے مطابق کرائسٹ چرچ کے علاقے ڈینز ایونیو میں واقع مسجد اور لین ووڈ مسجد میں مجموعی طور پر 49 افراد جاں بحق اور 39 افراد زخمی ہوئے۔

پولیس کے مطابق یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب مساجد میں نماز جمعہ کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔

اگرچہ نیوزی لینڈ میں پہلے بھی دہشت گردی کے واقعات پیش آ چکے ہیں، تاہم مساجد پر دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

نیوزی لینڈ میں واقعے فوری بعد پولیس جائے وقوع پر پہنچی—فوٹو: اے پی
نیوزی لینڈ میں واقعے فوری بعد پولیس جائے وقوع پر پہنچی—فوٹو: اے پی

اس ہولناک واقعے کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے اور سوشل میڈیا سمیت مختلف فورمز پر سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے دہشت گردی کے واقعوں کی کھل کر مذمت کیوں نہیں کی جاتی اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کو روکنے کے اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جاتے۔

نیوزی لینڈ میں ہونے والے اس حالیہ حملے کے بعد اگرچہ کئی ممالک میں سیکیورٹی کے انتظامات سخت کیے گئے ہیں، تاہم مسلمانوں میں خوف کی فضا برقرار ہے۔

اس حملے سے قبل جہاں نیوزی لینڈ میں بھی دہشت گردی کے واقعات پیش آ چکے ہیں، وہیں نیوزی لینڈ کے پڑوسی ملک آسٹریلیا میں بھی متعدد مساجد پر حملوں کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔

اگرچہ آسٹریلیا کو پرامن اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے والے ممالک کے طور پر دیکھا جاتا ہے، تاہم وہاں بھی مسلمانوں اور مساجد کے خلاف نفرت کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔

جرمنی اور فرانس کی طرح آسٹریلیا میں بھی زیادہ تر مسلم خواتین پر ان کے مکمل لباس کی وجہ سے حملے کیے جاتے ہیں۔

یورپ کے اہم ترین ملک جرمنی کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں مساجد کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔

جرمنی نشریاتی ادارے ’ڈی ڈبلیو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2010 میں ہی جرمنی کی 27 مساجد کو نشانہ بنایا گیا اور 2017 تک مساجد پر حملوں کی تعداد تین گنا تک بڑھ گئی۔

جرمنی بھر میں 2017 میں مسلمانوں کے خلاف 950 جرائم کے واقعات ریکارڈ کیے گئے جب کہ اسی سال جرمنی کی 73 مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔

مساجد کو نشانہ بنائےجانے کا سلسلہ 2018 میں بھی جاری رہا مارچ 2018 میں دارالحکومت برلن کی ایک مسجد کو نشانہ بنایا گیا۔

برلن میں دہشت گردوں نے مسجد کو نظر آتش کردیا تھا، جس سے فوری طور پر کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔

اسی حملے سے 2 دن قبل بھی ایک مسجد کو آگ لگادی دی گئی تھی، حیرانی کی بات یہ ہے کہ جرمنی میں مساجد پر ان حملوں کو دہشت گردی قرار دیے جانے یا دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کے بجائے ان حملوں کو اسلامی شدت پسندی سے جوڑا گیا۔

جرمن حکام کے مطابق ان حملوں میں ترکش نژاد مسلمان ملوث تھے اس لیے یہ حملے اسلامی انتہا پسندی کا نشانہ تھے اور ایسے حملوں کی روک تھام کے لیے دوسرے اقدامات کرنے کے بجائے مسلمانوں اور مساجد پر ہی شکوک کیے گئے۔

مارچ 2018 میں جنوبی جرمنی کے شہر اولما میں بھی مسجد پر بم سے حملہ کیا گیا۔

خوش قسمتی سے اس حملے سے بھی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم مسلمانوں میں خوف پھیل گیا، لیکن جرمن حکام نے مساجد اور مسلمانوں کی سیکیورٹی کے ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے انہیں ہی شدت پسند قرار دیا۔

برطانیہ کا شمار بھی یورپ کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر مساجد اور مسلمانوں کو زیادہ تر نشانہ بنایا جاتا ہے۔

جرمنی میں مساجد کو زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے—فائل فوٹو: ڈی ڈبلیو
جرمنی میں مساجد کو زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے—فائل فوٹو: ڈی ڈبلیو

اگست 2018 میں برطانوی شہر برمنگھم میں ایک ہی گھنٹے کے اندر 2 قریبی مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔

مساجد کو ایک ایسے وقت میں نشانہ بنایا گیا تھا جب کہ کچھ دن قبل ہی لندن میں دہشت گردی کے واقعہ ہوا تھا۔

نیوز ویب سائٹ نیوز ‘اسٹیٹمنٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ بھر میں 2013 سے 2017 تک 167 مساجد کو نشانہ بنایا گیا، تاہم مساجد کی سیکیورٹی کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

رپورٹ کے مطابق 2013 میں برطانیہ بھر میں 43 مساجد، 2014 میں 21 مساجد، 2015 میں 24 مساجد، 2016 میں 46 جب کہ 2017 میں 34 مساجد کو نشانہ بنایا گیا اور مساجد پر حملوں کا سلسلہ 2018 اور 2019 میں بھی جاری رہا۔

امریکا میں بھی مساجد اور مسلمان محفوظ نہیں اور وہاں بھی اکثر اسلام یا مسلم مخالف واقعات ہوتے رہتے ہیں۔

جنوری 2019 میں ہی امریکی عدالت نے ریاست مینی سوٹا میں 2016 میں امریکی انتخابات سے کچھ دن قبل ایک مسجد میں کیے گئے بم دھماکے کے 2 ملزمان کو مجرم قرار دیا۔

مسجد پر بم حملہ کرنے والے ان دہشت گردوں نے تسلیم کیا کہ وہ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔

سماجی تنظیم ’اےسی ایل یو‘ نے حال ہی میں امریکا اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں مسلمانوں اور مساجد پر بڑھتے ہوئے حملوں پر ایک رپورٹ جاری کی، جس کے مطابق امریکا کی تقریباً ایک درجن ریاستوں میں مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔

رپورٹ کے مطابق حالیہ چند سالوں میں امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن، کیلی فورنیا، اوہائیو، ٹیکساس، فلوریڈا، ورجینیا، مشی گن، نیو جرسی اور میساچوٹس کا شمار امریکا کی ان ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں مساجد کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا۔

ان ریاستوں میں گزشتہ 4 سے 5 سال میں 10 اور اس سے زیادہ مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔

علاوہ ازیں رپورٹ میں برطانیہ سمیت یورپ کے دیگر ممالک میں مساجد کو نشانہ بنائے جانے کے اعداد و شمار بھی جاری کیے گئے۔

مشرقی یورپی ملک بلغاریہ کے شہر کولوو میں تاریخی مسجد پر حملہ کرکے اسے نذر آتش کردیا گیا تھا۔

اگرچہ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا، تاہم مسلمانوں کے لیے مقدس ترین جگہ کی اہمیت رکھنے والے مقام کی بے حرمتی کیے جانے پر کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔

فروری 2014 میں بلغاریہ پولیس نے ملک کے دوسرے بڑے شہر پلوودیو پر حملہ کرنے والے 120 ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔

اس سے قبل اسی مسجد پر حملہ کرنے والے 4 مرکزی ملزمان کو عدالت نے سزا بھی سنائی تھی۔

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں 29 جون 2017 کو ایک حملہ آور نے مسجد کے نمازیوں کو گاڑی کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی، تاہم پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار کرلیا تھا۔

پولیس نے بتایا تھا کہ فوری طور پر حملہ آور کے حملہ کرنے کے مقاصد معلوم نہیں ہوسکے تاہم وہ نمازیوں پر حملہ کرکے انسانی جانیں لینا چاہتا تھا۔

فرانس میں مساجد کو بند کرنا ہی بہتر سمجھا گیا—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
فرانس میں مساجد کو بند کرنا ہی بہتر سمجھا گیا—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

اس حملے پر فرانس کے اعلیٰ عہدیداروں نے زیادہ تشویش کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی قرار دیا گیا۔

فرانس نے حیران کن طور پر مساجد کی سیکیورٹی بہتر بنانے کے بجائے انہیں بند کرنا اور مسلمانوں کو اپنی مذہبی عبادات سے دور رکھنا ہی بہتر سمجھا۔

فرانس نے فروری 2019 میں اپنے جنوب مشرقی شہر گرونوبل کی 7 مساجد کو بند کرنے کے احکامات جاری کیے۔

حکومت نے ان مساجد کو دہشت گردی کے پھیلاؤ اور ملک میں ہونے والے ممکنہ دہشت گردی کے پیش نظر بند کیا، حکام کے خیال کے مطابق ان مساجد سے ہی انتہاپسندی شروع ہوتی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ فرانس میں مساجد بند کی گئی ہوں، اس سے قبل 2016 میں بھی ملک بھر میں 20 سے زائد مساجد کو بند کیا گیا تھا۔

مساجد کو بند کرنا یا انہیں مذہبی عبادات کے لیے انتہائی کم وقت کے لیے کھولنا اور وہاں آنے والے مسلمانوں کو اپنی عبادات کرنے سے روکنے کا عمل فرانس تک محدود نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف اس طرح کے اقدامات جرمنی سمیت دیگر کچھ یورپی ممالک میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

امریکا میں بھی مساجد کی سیکیورٹی کے بہتر انتظامات کرنے کے بجائے انہیں بند کرنا ہی مناسب سمجھا جاتا ہے۔

کینیڈا کے شہر کیوبک میں جنوری 2017 میں فرانسیسی نژاد دہشت گرد نے اسلامک کلچرل سینٹر پر اس وقت حملہ کردیا تھا جب کم سے کم 50 مسلمان نماز کی ادائیگی کر رہے تھے۔

حملے میں کم سے کم 6 افراد جاں بحق اور 18 زخمی ہوگئے تھے۔

پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار کرلیا تھا، جس کی شناخت فرانسیسی نژاد کینیڈین شہری الیگزنڈر بسسنٹٹ کے نام سے ہوئی تھی، جسے بعد ازاں کینیڈین عدالت نے 40 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

اس حملے کو کینیڈین وزیر اعظم سمیت اعلیٰ حکام نے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی قرار دیا تھا۔

کیوبک اسلامک سینٹر پر حملہ کرنے والا مجرم—فوٹو: بی بی سی نیوز
کیوبک اسلامک سینٹر پر حملہ کرنے والا مجرم—فوٹو: بی بی سی نیوز

تبصرے (1) بند ہیں

Huma Waheed Mar 15, 2019 04:06pm
ap ney bhtreen report pesh ki