برطانوی ارکان پارلیمنٹ کا بریگزٹ میں تاخیر کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 15 مارچ 2019
یورپی یونین بریگزٹ میں تاخیر کی اجازت دینے سے متعلق حتمی فیصلہ کرے گا— فوٹو: اے ایف پی
یورپی یونین بریگزٹ میں تاخیر کی اجازت دینے سے متعلق حتمی فیصلہ کرے گا— فوٹو: اے ایف پی

برطانیہ میں بریگزٹ معاہدہ دوسری مرتبہ مسترد ہونے کے بعد برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے بریگزٹ میں تاخیر کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد یورپی یونین تاخیر کی اجازت دینے سے متعلق حتمی فیصلہ کرے گا۔

امریکی خبررساں ادارے ’ اے پی‘ کے مطابق بریگزٹ معاہدے پر کئی ہفتوں سے جاری سیاسی تعطل کے بعد برطانوی پارلیمنٹ کے اکثر اراکین نے گزشتہ روز رائے شماری کے نتیجے میں یورپی یونین سے علیحدگی میں تاخیر کے حق میں ووٹ دے دیا۔

خیال رہے کہ بریگزٹ کی طے شدہ تاریخ 29 مارچ ہے جس میں صرف 15 دن رہتے ہیں اور اب تک برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین سے علیحدگی کے کسی معاہدے کی منظوری نہیں دی گئی۔

گزشتہ روز برطانوی نے ارکان پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے بریگزٹ میں کم از کم 30جون تک کی مہلت طلب کرنے کے لیے رائے شماری کی۔

ابتدائی طور پر بریگزٹ میں تاخیر کرنے کے حق میں 412 اور اس کے خلاف 202 ووٹ دیے گئے تھے لیکن سرکاری ووٹنگ کی فہرست میں تبدیلی کے بعد تاخیر کے حق میں 413 ووٹ ہوگئے تھے۔

تاہم بریگزٹ میں تاخیر کی منظوری یا اسے مسترد کرنے کا اختیار یورپی یونین کے پاس ہے جبکہ یونین کی جانب سے پہلے ہی عندیہ دیا جاچکا ہے کہ وہ صرف اسی صورت میں تاخیر کی منظوری دیں گے اگر برطانیہ علیحدگی کا معاہدہ مںظور کرتا ہے یا بریگزٹ سےمتعلق نقطہ نظر میں بنیادی تبدیلی کرتا ہے۔

برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین سے انخلا کے حق میں ووٹ دینے کے 3 برس بعد اب برطانیہ کا مستقبل یورپی یونین کے ہاتھ میں ہے۔

تھریسا مے 21 اور 22 مارچ کو برسلز میں یورپی یونین کے اجلاس میں بریگزٹ میں مہلت طلب کرنے سے متعلق بات چیت کریں گی۔

اس حوالے سے یورپین کمیشن نے کہا کہ بلاک ممکنہ تاخیر کی وجوہات اور مدت سے متعلق جاننےکے بعد درخواست غور کرے گا۔

برطانوی ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے 2 مرتبہ بریگزٹ معاہدے کو کثرت رائے سے مسترد کیے جانے کے بعد تھریسا مے بریگزٹ میں تاخیر سے متعلق رائے شماری کے لیے مجبور ہوگئی تھیں۔

معاہدے کے بغیر بریگزٹ سے نہ صرف برطانوی عوام اور کاروبار بلکہ یورپی یونین کے دیگر 27 ممالک کے لیے بھی سنگین مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔

قانون کے مطابق برطانیہ کسی معاہدے کے تحت یا بغیر 29 مارچ کو یورپی یونین سے نکل جائے گا جب تک یورپی یونین بریگزٹ منسوخ نہیں کرتا یا اس میں تاخیر نہیں دیتا۔

گزشتہ روز برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے بریگزٹ سے متعلق دوسرے ریفرنڈم کے خلاف بھی رائے شماری کی گئی، جس میں ریفرنڈم کے خلاف 334 کر اس تحریک کو روکا گیا کہ یورپی یونین میں رہنے یا اسے چھوڑنے سے متعلق عوام کی جانب سے دوبارہ ووٹنگ کروانی چاہیے۔

تاہم دوسرےریفرنڈم کے حق میں صرف 85 ووٹ دیے گئے تھے۔

خیال رہے کہ اس وقت ایک نئے ریفرنڈم کے حق میں مہم چلانے والے افراد اس بات پر تقسیم ہیں کہ یہ بریگزٹ پر رائے شماری کے لیے یہ صحیح وقت ہے یا نہیں۔

تاہم تھریسا مے نے آئندہ ہفتے معاہدے بریگزٹ معاہدے کی منظوری کی تیسری کوشش کرنے کا اشارہ دیا ہے۔

یورپین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے ٹویٹ کیا کہ وہ یورپی یونین کے رہنماؤں سے مہلت دیے جانے کی اپیل کریں گے تاکہ برطانیہ بریگزٹ کی حکمت پر دوبارہ غور کرکے اس حوالے سے رائے قائم کرسکے۔

بریگزٹ معاہدہ

واضح رہے کہ 2016 میں برطانیہ میں ہونے والے حیرت انگیز ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دیا تھا جس پر عملدرآمد اب سے چند ہفتوں بعد ہو گا۔

جولائی 2016 میں وزیر اعظم بننے والی تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید مخالفت کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ اخراج کے معاہدے کو قبول کرلیں۔

اس معاہدے پر ووٹنگ گزشتہ سال دسمبر میں ہونا تھی لیکن بعد ازاں اسے جنوری تک کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔

مارچ 2017 میں برسلز میں شروع ہونے والے سخت مذاکرات کے نتیجے میں معاہدے کے مسودے پر اتفاق کیا گیا تھا جبکہ یورپی رہنماؤں نے دوبارہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کردیا تھا اور اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے برطانوی معیشت میں مستقل اضطراب پایا جاتا ہے۔

رواں برس کے آغاز میں بریگزٹ کے حوالے سے تازہ ووٹنگ میں تھریسامے کے خلاف 308 ووٹ سے ترمیم پاس کی گئی جس میں حکمراں جماعت کے درجنوں اراکین بھی شامل تھے جبکہ 297 اراکین نے وزیراعظم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی اپنی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے اراکین نے بھی لیبرپارٹی کا ساتھ دیا جس کے بعد 29 مارچ کو یورپی یونین سے مکمل علیحدگی کے حوالے سے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔

تاہم تھریسامے کو سب سے بڑی ناکامی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب 16 جنوری کو برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے علیحدگی کے وزیر اعظم تھریسامے کے بل کو واضح اکثریت سے مسترد کردیا اور انہیں 202 کے مقابلے میں 432 ووٹ سے شکست ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔

یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتداء میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہوگا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہوسکے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں