نیوزی لینڈ دہشت گردی: 'لاپتہ پاکستانیوں سے متعلق پوری قوم فکر مند ہے'

اپ ڈیٹ 16 مارچ 2019
وزیر خارجہ کے مطابق 19 مئی تک مودی سرکار کچھ بھی کروا سکتی ہے، لہٰذا چوکنا رہنا ہوگا — فوٹو: ڈان نیوز
وزیر خارجہ کے مطابق 19 مئی تک مودی سرکار کچھ بھی کروا سکتی ہے، لہٰذا چوکنا رہنا ہوگا — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملے کے بعد لاپتہ ہونے والے پاکستانیوں کی تلاش جاری ہے اور پوری قوم اس پر فکر مند ہے۔

ملتان میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ نیوزی لینڈ مسجد پر حملہ کرنے والے شخص نے اپنے سر پر کیمرہ نصب کیا ہوا تھا تاکہ وہ اس واقعے کو ریکارڈ کرے اور پوری دنیا میں براہ راست دکھائے، یہ وہ ذہنی کیفیت ہے جس سے ایک سوچ واضح ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گردواروں اور مندروں کی حفاظت کی طرح مساجد کی حفاظت کی بھی ضرورت ہے اور نماز جمعہ کے وقت یہ واقعہ ہونا قابل مذمت اور افسوس ناک ہے، اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نیوزی لینڈ عام طور پر بڑا پرامن ملک ہے، وہاں ایسا واقعہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا، ان کی وزیر اعظم کے تاثرات اور واقعے کو دہشت گردی کہنا متاثر کن ہے، اس کے علاوہ حملہ کرنے والوں کو گرفتار کیا ہے، جس کے بعد تحقیقات میں اصل بات سامنے آجائے گی۔

مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ دہشتگردی: مساجد پر حملہ کرنے والا انتہا پسند عدالت میں پیش

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ہماری ترجیح لاپتہ پاکستانیوں کی تلاش ہونی چاہیے، وقت گزرنے کے ساتھ فکر میں اضافہ ہورہا ہے اور پوری قوم اس واقعے میں لاپتہ پاکستانیوں سے متعلق فکر مند ہے۔

پاک-بھارت کشیدگی سے متعلق ایک سوال پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی آئی ہے، ہماری کوشش ہے کہ کشیدگی کم کرکے امن کی جانب بڑھیں، 14 مارچ کو اٹاری سرحد پر پاکستانی وفد گیا، جس نے کرتارپور راحداری سے متعلق بھارتی حکام سے ملاقات کی اور اگلی ملاقات واہگہ پر ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اس ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا جو بہت عرصے بعد سامنے آیا ہے، اس معاملے سے تو بہتری کا امکان ظاہر ہورہا ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بھارتی پائلٹ کی رہائی کا اقدام کا مثبت اثر پڑا لیکن اس سب کے باوجود بھارتی انتخابات کا عمل 19 مئی تک مکمل ہوگا، لہٰذا اس تاریخ تک مودی سرکار سے کوئی بعید نہیں کہ وہ کیا کرسکتے ہیں۔

پریس کانفرنس کے دوران شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمیں چوکنا رہنا ہوگا اور اپنی فضائی حدود کی حفاظت کرنا ہوگی، لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر کڑی نظر رکھنا ہوگی، ہم اپنی کوشش کریں گے۔

اپنے دورہ چین سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ چین، پاکستان کا گہرا دوست ہے، اس نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے، دورے کے دوران چینی وزیر خارجہ اور حکام سے ملاقات بھی ہوگی۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں کرنا آسان ہیں، جہاں سوشل میڈیا کے فوائد ہیں، وہاں ایسی چیزیں بھی ہیں جو حقائق کے برعکس ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے پاکستان نے کوشش کی ہے، ان کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی مجھ سے ملنے آئی تھیں، میری خواہش ہے کہ ہم انہیں واپس لانے میں کامیاب ہوجائیں لیکن جب بھی میری ان سے بات ہوئی تو بتایا گیا کہ امریکی قوانین معاملے میں آڑے آرہے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ جو بھی ان کا فائدہ چاہتے ہیں تو وہ اس طرح کے حساس معاملے میں احتیاط سے کام لیں۔

ایک سوال پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بیرون ملک میں موجود شہریوں کو سیکیورٹی فراہم کرنا وہاں کی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے، اسی طرح پاکستان میں غیر ملکی کو سیکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ وہاں مساجد کھلی رہیں گی، نماز و عبادات جاری رہیں گی۔

اپنی گفتگو کے دوران او آئی سی اجلاس سے متعلق انہوں نے بتایا کہ اس اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سے متعلق قرار داد بیان کی گئی، پہلی مرتبہ بھارتی کارروائیوں کو ریاستی دہشت گردی سے تشبیہ دی گئی، میں ان وزرائے خارجہ کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ہم سے تعاون کیا اور ہماری بات سمجھی۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر میں مساجد پر ہونے والے حملوں پر ایک نظر

وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت دنیا بھر کو یہ تاثر دے رہا کہ جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہورہا ہے، وہ دہشت گردی ہے کیونکہ یہ ان کا بیانیہ ہے جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ وہ دہشت گردی نہیں حق خود ارادیت کی جدوجہد ہے، جب اسے آہنی ہاتھوں اور خصوصی قوانین سے کچلا جائے گا تو اس کا ردعمل آئے گا۔

کشمیری جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پر امن تحریک نے آج کشمیر کو نمایاں کردیا ہے، بھارت کی کوشش تھی کہ اس مسئلے کو دبا دیا جائے لیکن اب حکومتوں کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2 روز قبل پاکستان میں موجود کشمیر کی تمام قیادت کو مدعو کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان ان کی مشاورت سے کس طرح مسئلہ کشمیر کے معاملے کو آگے لے کر چلے۔

بھارت پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے جبکہ بھارت جان بوجھ کر خبریں لیک کرتا ہے اور پوری دنیا نے دیکھا کہ بھارت کا رویہ جارحانہ اور غیر ذمہ دارانہ تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں